زندگی قرض ہے جو قسطوں میں ادا ہوتی ہے
قرض اْٹھا لیا جائے تو ادا کرنا وبال بن جاتا ہے۔ ہم اور آپ میں ایسے بہت ہی کم قرض دارہوں گے جو بالآخر اس مصیبت سے چھٹکارا پاکر آزادی حاصل کرپاتے ہوں گے لیکن اگر ملکی وعالمی سطح پر اس پیمانے کوناپا جائے تو بہت سی مثالیں ہمیں اس کلیے کے اْلٹ بھی ملتی ہیں۔ ترقی وارتقاء کے تیزی سے طے کرنے والے سفر اور مشکلات کو آسانیوں میں آسانی تبدیل کرنے میں چائنہ کی مثال مجھے اولین لگتی ہے۔ آپ گلوبل ولیج پر نظر دوڑائیے ایسے چھوٹے چھوٹے بے شمار ممالک کی ایک فہرست دکھائی دیتی ہے جو زیرو سے ہیروبن گئے۔ملائشیا، دوبئی، جنوبی کوریا ودیگر بے شمارمثالیں ہمارے سامنے ہیں اور ہم آج کئی سال بعد بھی یہ سوچ وبچار کرتے نظر آتے ہیں کہ چائنہ سے پوچھنے جائیں گے کہ آخر اْنہوں نے ترقی کیسے کی تھی؟ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے فاسٹ ایرا میں بھی کیا ہمیں خود جاکر بالمشافہ ملاقات کرکے ہی اس کا جواب حاصل ہوسکتا ہے؟ دْنیا بھر میں جو ہے جیسا ہے سب کے سامنے ہے۔ آج کچھ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب تو ذاتی ملاقاتوں اور خفیہ باتوں کی ویڈیوز آسانی سے بن بھی جاتی ہیںاور لیک بھی ہوجاتی ہیں۔ ترقی کا راز قارون کا خزانہ تو نہیں ہے جسے کھوجنے کے لئے ٹیم کو تشکیل دے کر اْس ملک کے سفرپر روانہ ہوا جائے۔ ہم تو قرض داروں کی فہرست میں میں بھی سرفہرست آچکے ہیں۔ ہر سال یہ حساب کرتے ہیں کہ اب ہماری آئندہ نسلیں کتنی قرض دار ہوچکی ہیں۔ڈالر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت قرض کی اس بھاری بھر رقم بلکہ بوجھ کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ پہلے تحریک لبیک پاکستان کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور کر بھی کیا سکتے تھے اور ماضی کی روایات کو نہ صرف قائم رکھتے ہوئے بلکہ سابقہ ریکارڈز کی لسٹ کو اور حدود کو کراس کرتے ہوئے قرضہ جات کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے جارہے ہیں یعنی آئی ایم ایف سے اْن کی مرضی کے ماتحت شرائط کو ماننا ہی پڑا۔حسب سابق آئی ایم ایف کا پھر وہی مطالبہ کہ ٹیکس کی رقم کو بڑھا دو۔ملک میں مہنگائی بڑھے یا آئی ایم ایف کے قرضہ کی رقوم۔ آجاکر متاثر کون ہوتا ہے؟ ہم عوام ہی اس سارے چکر کا گھن چکر بنے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم اپنی عیاشیاں کم نہیں کرتے اور اپنا لائف سٹائل تبدیل نہیں کرتے لہذا ان لگژری لائف کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اپنا کشکول آئی ایم ایف کے سامنے کرنا ہی پڑتاہے۔ لیکن میرا سوال ہے کہ 22کروڑ عوام میں کتنی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کی پرتعیش لائف گزار رہے ہیں۔ کالم لکھتے ہوئے کراچی کی جھونپڑی میری نظروں کے سامنے آگئی۔صبح سویرے80سال کی عمر میں اپنی کمر پر اشیائے فروخت کا بوجھ اْٹھائے وہ بوڑھا نظرآ گیا جس کے پاس کوئی سواری تک نہیں ہے جس پروہ اپنا سامان رکھ کر باہر نکل سکے۔فکر معاش اْسے سائیکل تک خریدنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
ہرروزپٹرول اور دیگر اشیاء کی بڑھتی قیمتوں نے متوسط طبقے کو بھی نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ جب بجلی، پانی اور گیس کا بل آتا ہے تو وہ غریب اور امیر کے فرق کونہیں سمجھتا۔ یونٹ کا ریٹ سب کو ایک جیسا ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ سبزی دا ل کے بھائو ان غریبوں کے لئے بھی وہی ہیں جو عیش بھری زندگی گزارنے والوں کیلئے ہیں۔ یہ معاشرے کا وہ چہرہ ہے اور وہ طبقہ ہے جس کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اپنی زندگی کو مزید نیچے لانے کا مشورہ کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ٹیکس در ٹیکس ادا کرنے والے ہم سب عوام ہیں ایک معمولی چیز خریدنے کیلئے بھی ہمیں رقم کا بڑا حصہ ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑرہا ہے۔ قرض داروں کوسزا کا کہنے والے آج اس قدر قرضہ جات لے رہے ہیںکہ ایک خبر کے مطابق تنخواہیں تک اس قرضہ جات سے ادا کی جارہی ہیں۔ نوکری کے بعد پنشن کی آس پہ زندگی کے دن پورے کرنے والوں کو اب مستقبل قریب سے بھی خطرہ لاحق ہے۔ حالیہ عرصہ میں پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب5کروڑ90لاکھ ڈالرز کا قرض ملے گا لیکن اس کیلئے آئی ایم ایف نے انتہائی کڑی شرائط بھی رکھی ہیں۔1.059ارب کی اگلی قسط سے قبل سٹیٹ بینک کی خودمختاری، پٹرولیم ڈویلپمنٹ میں اضافہ کے ساتھ ہی ساڑھے تین سو ارب کے نئے ٹیکس بھی لگانا ہوں گے۔پٹرولیم لیوی چارروپے ماہانہ بنیادوں پر بڑھائی جائیگی۔ آپ اندازہ کیجئے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کا کتنا بڑا طوفان اس غریب طبقے کا بالخصوص منتظر ہے بلکہ اب تو متوسط طبقہ کی حالت بھی غربت کی لکیر تک پہنچ چکی ہے۔ ٹیکس توکسی کی ذات پوچھے نہ اور نہ اوقات۔ مہنگائی کے ا ْصول تو سب پر یکساں ہی لاگو ہوں گے۔ جہاں پر احساس ہونا چاہئے وہاں صرف احساس پروگرام پر ہی گزارا نظر آتا ہے۔ حالانکہ احساس پروگرام زندگی کے ہر پہلو پر عملی طور پر لاگو نظر آنا چاہئے تھا۔ کچھ اندازہ بھی ہے کہ کتنے لوگ بے حسی کی موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی شاید اس کا اندازہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔