پروفیسر مرغوب صدیقی: شہری آزادیوں کے علمبردار
پروفیسر مرغوب صدیقی اپنے دور کی صحافت کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ ایک ثقہ صحافی اور سکالر تجزیہ کار تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے جرنلزم کی کلاسوں کا اجرا انہوں نے کیا تھا۔ امریکہ تعلیم حاصل کرنے گئے تھے جہاں اُنکے واقفوں میں بین الاقوامی شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے والے دو اہم نام آتے ہیں۔
ایک کرٹ والڈہائیم جو بعد میں اقوامِ مُتحدہ کے سیکریٹری جنرل بنے، اور دوسرے ہینری کِسنجر تھے جو بعد میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ بنے (میں نے خود ان دونوں شخصیات کے ساتھ مرغوب صدیقی کی تصاویر ان کے گنگا رام بلڈنگ والی رہائش پر سنہ اسّی کی دہائی کے وسط میں دیکھی ہوئی ہیں (تاہم پروفیسر صدیقی سے انکے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں علم نہیں ہے)۔ صدیقی صاحب تحریکِ پاکستان کے اہم کارکنوں میں سے تھے، اور انڈیا کے شہر بدایوں میں صاحبِ حیثیت خاندان سے تعلق کے باوجود پاکستان ہجرت کرگئے تھے۔ اُن کی انڈیا میں کافی جائیداد تھی جس پر کئی دہائیوں تک مقدمات چلتے رہے۔ ان کے پاکستان ہجرت کرنے اور انڈیا کی شہریت ترک کرنے کے بعد کئی لوگوں نے ان کی جائیداد ہتھیانے کے لیے عدالتوں میں مقدمات دائر کردیے تھے۔
صدیقی صاحب کی بیوہ نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ سنہ پچاس کی دہائی میں جب پاکستان کو گندم کی قلت کے بحران کا سامنا تھا تو مرغوب صدیقی نے اپنے اثر و رسوخ سے امریکی پالیسی میکرز کو قائل کیا تھا کہ پاکستان کو جلد از جلد گندم فراہم کی جائے۔ (گندم کے بحران اور پھر مارشل پلان کے تحت اس کی فراہمی ایک الگ کہانی ہے)۔ یہ ایوب خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ مرغوب صدیقی اپنی آزاد منش طرزِ زندگی کی وجہ سے کسی اخبار میں باقاعدہ ملازم کے طور پر کام نہ کرسکے۔ وہ زیادہ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ اس دوران وہ سیاست، سماجیات اور بین الاقوامی امور پر علمی تجزیے لکھتے رہے (کاش کوئی ان کی تحریروں کو جمع کرکے شائع کرسکے)۔
پاکستان کے کئی حکمرانوں سے اُنکے قریبی تعلقات رہے۔ لیکن اپنی خوداری اور عزت نفس کی وجہ سے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز گلزار مشہدی کے مطابق، ذوالفقار علی بھٹو تک ان کا نام ایک سمری میں لکھ کر بھیجا گیا تھا تاکہ ان کی حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کے اثر کو زائل کرنے کے لیے صدیقی صاحب سے مشاورت کی جا سکے۔ یہی خط پھر جنرل ضیا کے زمانے میں اُن کے لیے مصیبت کا باعث بنا۔سنہ 1979 ء میں جنرل ضیا کے دور میں وہ اپنے دیرینہ دوست زاہد ملک سے ملاقات کے لیے راولپنڈی گئے تھے وہیں سڑک پر دل کا دورہ پڑا۔ انکی وفات 23 نومبر 1979 ء کو راولپنڈی میںہوئی۔ اُن کی لاش نامعلوم شحض کے طور پر ایک دو دن مقامی ہسپتال کے مردہ خانے میں پڑی رہی۔ دوستوں نے ان کی میت کی تدفین کا انتظام کیا۔ ان کی موت اس لحاظ سے دل دہلادینے والا واقعہ ہے کہ وہ صحافی تھے، لیکن سڑک پر مردہ حالت میں ملے۔ بالکل ویسا انجام جو سیاسی اسیران کی رہائی اور بحالی کی تحریک کے روحِ رواں لیاقت حسین وڑائچ کا ہوا۔
مرغوب صدیقی کمیونسٹ نظریات کے حامی نہیں تھے، اسی لیے اُن کے مخالفین اُنہیں امریکہ نواز دانشور گردانتے تھے۔ تاہم وہ متروکہ املاک وقف بورڈ کی جانب سے ملے ہوئے کرائے کے ایک فلیٹ میں رہے اور اپنے ترکے میں کُچھ بھی نہیں چھوڑا۔ کیسی ستم ظریفی تھی کہ پاکستان بنانے والوں میں شامل ایک بڑے خاندان کا فرد جس نے مغرب میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی، وہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے کوئی ترکہ چھوڑے بغیر ہی اس عالمِ فانی سے رخصت ہوا۔
پاکستان کی تقسیم سے قبل ہی آزادی کی جنگ لڑنے والے پڑھے لکھے طبقوں میں یا دوسرے الفاظ میں انٹیلیجنشیا میں بائیں بازو کے نظریات فروغ پا رہے تھے۔ جس کی ایک وجہ تو بائیں بازو کے نظریات کا مقبول ہونا تھا اور دوسری وجہ، جو میرے خیال میں زیادہ اہم تھی، یہ تھی کہ نوآبادیوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں مغربی حاکموں کے خلاف تھیں۔ جیسے کہ جنوبی ایشیا میں آزادی برطانیہ سے مانگی جا رہی تھی۔
برطانیہ کی طرح چند ایک اور یورپی طاقتیں اُس زمانے کی حاکم قوتیں تھیں جنھوں نے دنیا کے کئی حصوں پر اپنی نوآبادیاں قائم کی ہوئی تھیں اور یہ سب اپنے محکوم علاقوں کو آزاد نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ تاہم اُسی دور میں جب روس میں سوشلسٹ انقلاب آیا تو سویت یونین بننے والا پہلا سوشلسٹ ملک ان نوآبادیوں کا حامی بن کر ابھرا۔ محققین کے مطابق، کئی نوآبادیوں میں آزادی کی تحریکیں نظریاتی طور پر سوشلسٹ نہیں تھیں، لیکن کیونکہ سویت یونین مغربی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے کی تحریکوں کی حمایت کرتا تھا اس لیے مغربی طاقتیں ان آزادی کی تحریکوں کو سوشلسٹ تحریکیں کہہ کر کچلنا چاہتی تھیں۔وہ سوشلسٹ نہیں تھے، لیکن پاکستان کو ایک جدت پسند مقتدر اور لبرل جمہوریت کے طور پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ انکے چند تجزیے جو اتفاقی طور پر میں نے دیکھے، ان میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ آزادیٔ اظہارِ رائے اور آزاد پریس کے بغیر جمہوری نظام کے تصور کو ناقابلِ قبول سمجھتے تھے۔ وہ پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کے بین الاقوامی اور علاقائی حالات کا گہرا ادراک رکھتے تھے، انھیں عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا بھی احساس تھا اور اسی کو سمجھتے ہوئے وہ پاکستان کے لیے ایک عملیت پسند پالیسی کی وکالت کرتے تھے۔ پروفیسر مرغوب صدیقی اس دور کے لبرل دانشور تھے جب سرد جنگ کی وجہ سے دنیا دائیں اور بائیں بازو کی تحریکوں میں پر تشدد انداز میں منقسم تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دائیں اور بائیں بازو کے فعال کارکن ایک دوسرے کا خون کردینے پر آمادہ نظر آتے تھے چاہے اس کی قیمت عوام کو ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ صدیقی صاحب کا ان دونوں دھڑوں سے تعلق نہیں تھا۔ ایسے منقسم دور میں صدیقی صاحب کی کوشش تھی کہ قومی ترقی کے لیے تمام فریقوں میں کم سے کم ایجنڈے پر ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔یہ وہی خیال ہے جو بعد میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کی سوچ کی بنیاد بنتا ہے۔ اُن کے یہی لبرل خیالات جو اُس دور میں ملک غلام جیلانی جیسے جمہوریت پسند سیاسی دانشوروں میں مقبول تھے، خاص کر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، لبرل جمہوری نظام کی فکری بنیاد بنے اور انسانی حقوق کی اہمیت اور حقیقت کو تسلیم کیا گیا۔ اسی کے تسلسل میں ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان اور عاصمہ جہانگیر جیسی شخصیات کی پذیرائی ہوئی۔
اس دلیل کے پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو آج بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی لبرلزم اور لبرل جمہوری نظام کی جو شکل وجود میں آئی ہے اُس کے بانیوں میں کسی شک و شبہ کے بغیر پروفیسر مرغوب صدیقی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آج کی آزادی کی تحریک اور جمہوریت کی آفاقی مقبولیت کے سرخیلوں میں صدیقی صفِ اول کے مفکروں میں شمار ہوں گے۔
آج لبرل اقدار اور انسانی حقوق کی اہمیت کو نظریاتی تقسیم سے بالا ہو کر تسلیم کیا جانا ان کے نظریات کی ایک بڑی کامیابی ہے۔