قومی کرکٹ کے سابق ہیڈ کوچ مصباح الحق کی گفتگو
حافظ محمد عمران
مصباح الحق کا شمار پاکستان کے بہترین کرکٹرز اور کامیاب کپتانوں میں ہوتا ہے۔ وہ لمبے عرصے تک کامیابی کے ساتھ ٹیم کی قیادت کرتے رہے۔ ان کی کپتانی میں ٹیم نے کئی تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔ پاکستان آئی سی سی کی ٹیسٹ درجہ بندی میں پہلے نمبر پر بھی آیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر بنے۔ گذشتہ دنوں ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ سے پہلے وہ اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوئے۔ کوچنگ کیرئیر اور اس دوران ہونے والے فیصلوں کے حوالے سے مصباح الحق کے ساتھ ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے
سوال۔ آپ نے اچانک ورلڈکپ سے پہلے عہدہ چھوڑ دیا کہا گیا کہ آپ بھاگ گئے ہیں، استعفیٰ کیوں دیا؟
جواب۔ بہت لوگ یہ بات کر رہے ہیں۔ اس میں دو چیزیں ہیں ایک بورڈ کی سطح پر تبدیلی اور دوسرا ہم نے تبدیلی کو کیسے سمجھا۔ جہاں تک بورڈ میں تبدیلی کا سوال ہے تو سب سے بڑی وجہ یہی ہے کیونکہ جب کرکٹ بورڈ کا چیئرمین تبدیل ہوا تو انہوں نے ذہن بنا لیا تھا کہ ہمیں ہر حال میں تبدیل کرنا ہے۔ وہ ہمیں بدلنا چاہتے تھے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں ورلڈکپ کے لیے اعلان کردہ ٹیم سے مطمئن نہیں تھا نہ وہ کوچ کی ٹیم تھی نہ وہ کپتان کی ٹیم تھی۔ کیونکہ جس ٹیم کا اعلان کیا گیا وہ ہماری دو سال کی محنت اور منصوبہ بندی کے برعکس تھی۔ ہم اس ایونٹ کو سامنے رکھ کر کام کر رہے تھے لیکن ابتدائی طور پر اعلان کردہ ٹیم ہماری منصوبہ بندی پر پورا نہیں اترتی تھی یہی وجہ تھی کہ کپتان بھی اس سے خوش نہیں تھا۔ ہم بہتر کھلاڑیوں پر کام کر رہے تھے اور پھر سب نے دیکھا کہ جن کھلاڑیوں کو ہم سپورٹ کر رہے تھے وہ ٹیم میں واپس آئے اور انہوں نے بہتر کھیل کا بھی مظاہرہ کیا۔ میرے مستعفیٰ ہونے کی یہی دو بڑی وجوہات ہیں۔ دو سال جس ٹیم کے لیے آپ محنت کر رہے ہوں اس کے بغیر کھیلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے مستعفیٰ ہونے کا ملبہ ہم پر ڈالنا مناسب نہیں ہے۔
سوال۔ ٹیم کی کارکردگی ورلڈ کپ میں بدلی ہوئی نظر آئی یہ مصباح الحق اور وقار یونس کے جانے سے ہوا؟
جواب۔لوگ یہی سمجھتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں اگر ٹیم نے اچھا پرفارم کیا ہے کیونکہ ہم اگر کنڈیشنز کو نہیں سمجھیں گے تو ناکام ہو جائیں گے۔ ورلڈ کپ میں ہم نے کتنی مرتبہ دو سو کیا۔ اب ہم مائنڈ سیٹ کی بات کر رہے ہیں اگر کوئی جارحانہ ہمارا مائنڈ سیٹ تھا تو ہم اس طرح کھیلتے تو پھر ہم کیوں پاور پلے میں پینتیس چالیس سکور کر رہے تھے میرے خیال میں تنقید برائے تنقید اچھی بات نہیں ہے۔ غیر جانبداری سے چیزوں کو دیکھنا چاہیے۔ ہاں ٹیم اچھا کھیلی ہے لڑکوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے جو کوچنگ سٹاف ٹیم کے ساتھ ہے وہ کریڈٹ کا مستحق ہے لیکن کھلاڑی وہی تھے جن پر ہم کام کرتے رہے اور اسی انداز سے کھیلے جو ہم دو برس تک پلان کرتے رہے۔ کنڈیشنز کے مطابق کھیلنے اور حالات کو سمجھے بغیر کھیلنا دانشمندی نہیں۔ورلڈ کپ کی ٹیم اسی پیٹرن پر کھیلی اور بنگلہ دیش کے خلاف بھی وہی طریقہ تھا، ساتھ ہی کپتان کا کردار بھی ویسے ہی نظر آیا۔
سوال۔ ایک وقت ایسا تھا کہ آپ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پسندیدہ تھے آپ کو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنایا گیا لیکن اس کے بعد یوں لگا کہ آپ پسندیدہ نہیں رہے؟
جواب۔ دیکھیں اختلاف رائے بہت ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کسی کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ جب آپ بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں تو بہت سے معاملات پر رائے اور خیالات میں فرق ہوتا ہے فیصلہ کرنے والوں کو اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے توہین سمجھنے لگیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میں خود تو اس عہدے پر نہیں آیا تھا ظاہر ہے اس وقت بہت چیزیں ہوئی ہوں گی۔ میرا خیال ہے ہمیں فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے اور جب فیصلہ کر لیں تو پھر اس پر قائم رہنا چاہیے۔ مجھے ٹیم بنانے کے لیے ذمہ داری دی گئی تھی۔ میں نے اس وقت کرکٹ بورڈ کو بتا دیا تھا کہ یہ مشکل کام ہے اس میں ہم تجربات کریں گے تو وہ غلط بھی ہوں گے آپ پر تنقید ہو گی، مجھے تنقید سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ میں نے سارا کیرئیر ایسے ہی کرکٹ کھیلی ہے۔ آپ کے لیے یہ مشکل ہو گا۔ ٹیمیں بنانے کے لیے مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم فیصلہ تو کرتے ہیں لیکن دباؤ میں آتے ہیں اور قائم نہیں رہتے۔ کسی کو بھی کوچ لگائیں پھر اْس پر پورا بھروسہ کریں پھر اس کے کام میں دخل نہ دیں، پھر یہ نہ کہیں کہ تھوڑی ہماری مانیں اور تھوڑا خود کر لیں۔ میرے خیال سے یہ نہیں ہونا چاہیے۔
سوال۔ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر ایک ہی شخص کو ہونا چاہیے؟
جواب۔ یہ تجربہ اس لیے کیا گیا تھا کیونکہ سلیکشن کمیٹی اور ہیڈ کوچ میں ہمیشہ اختلاف رائے رہتا تھا۔ دونوں کے سوچنے اور کام کرنے کا اپنا انداز تھا جس وجہ سے مسائل پیدا ہوتے تھے ابتدائی طور پر یہی سوچا گیا تھا کہ کھیل کی بہتری اور کرکٹرز کو بھرپور مواقع دینے کے لیے ایک ہی شخص کو دونوں ذمہ داریاں دی جائیں۔ پھر یہ کہوں گا کہ چیزوں کو وقت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوال۔ بڑی تعداد میں تبدیلیوں کی وجہ کیا تھی؟
جواب۔ مجھے ٹیم بنانا تھی، بہت لڑکوں کو مواقع دیے، جنہیں موقع دیا گیا وہ سب باصلاحیت تھے لیکن کرکٹرز کو بنانے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے۔ اگر ہم کھلاتے رہے ہیں تو آج کھلاڑی نظر آ رہے ہیں یہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اب جو بھی آئے گا اس کے سامنے واضح تصویر ہو گی کہ اس نے کیا کرنا ہے اور کون سا کھلاڑی کیا کر سکتا ہے۔
سوال۔ تبدیلیاں کرتے ہوئے تنقید کا سوچتے تھے؟
جواب۔ بالکل نہیں مجھے علم تھا کہ کیا کرنے آیا ہوں اور کیا کر رہا ہوں، میں ملکی کرکٹ پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا جو بہتر ہے وہ کوئی بھی اسے کھیلنا چاہیے۔ جب آپکو یہ علم ہو کہ جو کر رہے وہ مستقبل میں فائدہ دے گا تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔
سوال۔ تاثر ہے کہ ہر چیز باہر سے مصباح الحق ہی کرتے تھے؟
جواب۔ ہمارے یہاں ہدف بنا کر تنقید کی جاتی ہے، ناقدین خود کسی ایک طرف نہیں رکتے، اگر نتائج خراب ہوں تو کوچنگ سٹاف کا احتساب شروع ہو جاتا ہے، اگر کپتان کی اتھارٹی پر بات ہے تو پھر جواب بھی اس سے مانگا جانا چاہیے، ناکامی پر کہا جاتا ہے کہ کوچنگ سٹاف کچھ کرتا نہیں۔ اگر کوچنگ سٹاف سے جواب طلبی ہونی ہے تو پھر انہیں اختیارات بھی ملنے چاہئیں۔اپنی رائے دیتے تھے لیکن گراؤنڈ میں کپتان بابر اعظم کو مکمل اختیار ہوتا تھا سارے فیصلے وہ خود کرتے تھے۔ مخصوص تنقید یہ ہے کہ اگر میں نے آپکو ہدف بنانا ہے تو بچنا ممکن نہیں ہے۔اپنے لوگوں کی محبت ہے وہ یہ یقین ہی نہیں کر سکتے کہ ہمارے اپنے لوگ بھی اچھا کر سکتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کا ریکارڈ کچھ بھی ہو اس پر نظر نہیں جائے گی لیکن اپنے لوگوں پر کوئی اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔
سوال۔ بابر اعظم پرچیوں پر عمل کرتے تھے؟
جواب۔ یہ بات ہی غلط ہے کہ پرچی جاتی تھی میچ سے پہلے ہی سب باتیں ہو جاتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی میچ کے دوران بدلتی صورتحال میں ہم صرف باہر سے پیغام بھجوا سکتے ہیں لیکن فیصلہ کپتان ہی کرتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہم نے اپنی رائے دی لیکن کپتان نے اپنا فیصلہ کیا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں ڈوپلیسی کھیلنے آیا تو ہمارا خیال تھا کہ یاسر شاہ کو باؤلنگ دی جائے تاکہ وہ اسے سیٹ ہونے سے پہلے آؤٹ کر دے لیکن کپتان نے فہیم کے ساتھ باؤلنگ جاری رکھی اور اسے کامیابی بھی ملی سو یہ ساری چیزیں کرکٹ کا حصہ ہیں اسے منفی رنگ دینا مناسب نہیں ہر کسی کے سوچنے کا اپنا انداز ہے۔ ہم مشورہ دے سکتے ہیں باہر سے زبردستی نہیں کر سکتے۔ یہ سب کی مشترکہ کوشش ہوتی ہے۔ آج بھی وہی پلینگ الیون بنتی ہے جو میں بناتا تھا بابر وہی کر رہا ہے، ٹیم اسی طریقے سے کھیل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔
سوال۔ نجم سیٹھی کہتے ہیں کہ مصباح عظیم کپتان تھے لیکن کوچ اچھے ثابت نہیں ہوئے،پاکستانی کوچز دباؤ میں آتے ہیں؟
جواب۔ اس کا مطلب ہے نجم سیٹھی صاحب نے مجھے پاکستان ٹیم کا کپتان بنا کر غلط کیا۔ اگر میں اس قابل نہیں تھا تو مجھے ہٹا دیتے مجھے پھر کیوں رکھا۔ اگر میں تعصب پسند تھا یا پھر میرٹ پر فیصلے نہیں کرتا تھا تو مجھے پاکستان ٹیم کی کپتانی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ میں کیوں کپتان تھا کیونکہ کپتان بھی تو وہی چیز ہے جو کوچ ہے اس نے بھی تو لڑکوں کے ساتھ انصاف کرنا ہے اس نے بھی تو میرٹ دیکھنا ہے اس نے بھی تو پاکستان کا سوچنا ہے اگر میں بحثیت کپتان ان اصولوں کی پاسداری کی ہے تو پھر چند دن میں ہیڈ کوچ بننے کے بعد کیسے ان بنیادی چیزوں کو نظر انداز کر سکتا ہوں۔ یہ سوچ ہی غلط ہے۔ یہ بات کرنے کی کوئی وجہ یا اس میں کوئی دلیل نظر نہیں آتی۔
سوال۔ محمد رضوان کی زندگی بدل گئی نیوزی لینڈ کے خلاف آخری ٹی ٹونٹی میچ میں یہ کس کا فیصلہ تھا؟
جواب۔ رضوان میں یہ خوبی ہے کہ وہ فاسٹ با?لرز اور سپنرز کو بہت اچھے طریقے سے سمجھ کر کھیلتا ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے وہ کامیاب ہے۔ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ہم ٹی ٹونٹی سے پہلے رضوان کے ہمراہ کسی فلائٹ سے آ رہے تھے تو میں نے راستے میں اسے کہا تھا کہ رضوان تم نے اوپننگ کرنی ہے اور میں تمہیں آگے پاکستان ٹیم کے لیے کامیاب وکٹ کیپر بیٹسمین دیکھ رہا ہوں۔ اس کو ٹی ٹونٹی میں اوپننگ پر لانا پاکستان ٹیم کے لیے بہتر ہوا۔ رضوان اوپنر کے طور پر کھیلا ، اس فارمیٹ میں اس نے اپنے آپ کو منوایا۔ مسلسل بہتر کھیل سے اسکے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ میں جانتا ہوں وہ کس طرح کا اوپننگ پارٹنر ہے ، چیلنج لیتا ہے وہ پاکستان کرکٹ کا بہترین سرمایہ ہے۔
سوال۔ عاقب جاوید نے کہا مصباح کو کوئی سکول کا بھی کوچ بھی نہ لگائے۔
جواب۔ دیکھیں میرا عاقب بھائی کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا ہے۔ زبردست آدمی ہیں ایماندار ہیں محنتی ہیں ان کا سوچنے کا اپنا انداز ہے انہوں نے میرے بارے جو بھی کہا اس پر کوئی جواب نہ پہلا دیا نہ آئندہ کوئی بات کروں گا۔ وہ میرے سینئر ہیں جس سے بھی میں نے کچھ سیکھا ہے۔ اس کے بارے نامناسب الفاظ استعمال نہیں کر سکتا۔
سوال۔ آصف علی کی کارکردگی پر کیا کہیں گے؟
جواب۔آصف کے لیے تو مجھے خوشی ہے کہ میں اسے لے کر آیا لیکن میں اس چیز سے خوش ہوں شکر ہے کہ اس نے اچھا پرفارم کیا۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم انہی لڑکوں کو بیک کرتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا نام جڑا ہے یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ آصف نے پاکستان کے لیے پرفارم کیا، آصف کی جگہ کوئی بھی پاکستان کے آصف نے اچھا پرفارم کیا پاکستان کے لیے میچ جیتے یہ سب سے اہم ہے۔
سوال۔ کیا ڈیپارٹمنٹ کرکٹ بند ہونے سے نقصان ہوا ہے؟
جواب۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ بند ہونے سے کھیل کا معیار گرا ہے۔ محکمے کھلاڑیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے، محکموں کی موجودگی میں کرکٹرز معاشی طور پر زیادہ فکرمند نہیں ہوتے تھے۔ محکمے صرف قائد اعظم ٹرافی ہی نہیں کھیلتے تھے بلکہ ان کے پاس ایک مکمل نظام تھا جس کی وجہ سے ملکی کرکٹ کو فائدہ ہو رہا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ بند ہونے سے ناصرف کھیل کو نقصان پہنچا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم اچھے ہیومن ریسورس سے بھی محروم ہوئے۔ ڈیپارٹمنٹس کی خدمات اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کسی نہ کسی صورت میں ضرور نظام کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔
سوال اپنے کوچنگ کیرئیر سے مطمئن ہیں؟
جواب۔ میں نے اپنا تجربہ نوجوانوں کو منتقل کرنے اور پاکستان کرکٹ کو بہتر بنانے کے لیے ذمہ داری لی تھی اس دوران اپنی سمجھ کے مطابق اور تجربے کی روشنی میں فیصلے کیے۔ کبھی ذاتی پسند ناپسند یا اختلافات کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ اتنی بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کو موقع دینے کا مطلب نئی اور بہتر ٹیم تیار کرنا تھا۔ میں نئے کھلاڑیوں کی کھیپ چھوڑ کر جا رہا ہوں یہ باصلاحیت کرکٹرز پاکستان کا مستقبل ہیں۔