گرفتاریاں جاری،900پر دہشت گردی کا مقدمہ
لاہور+ سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگار+ نمائندہ خصوصی) سیالکوٹ سانحہ کی ابتدائی رپورٹ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ارسال کر دی گئی۔ ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیکٹری کی مشین پر مذہبی حوالے سے ایک سٹکر لگا تھا، غیر ملکیوں کے وزٹ کی وجہ سے منیجر نے سٹاف کو سٹکر ہٹانے کا کہا، ملازمین کے انکار پر منیجر نے خود سٹکر ہٹا دیا۔ سیالکوٹ میں ایسے افراد جنہوں نے اشتعال دلایا، ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا، پولیس نے مرکزی ملزموں کو گرفتارِ کر کے مزید تحقیقات شروع کر دی۔ ملزموں کو گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تا کہ مزید تحقیقات کی جائے۔ فیکٹری منیجرز کی معاونت سے واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی۔ منیجر کے سخت ڈسپلن اور کام لینے پر ورکرز پہلے سے غصے میں تھے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ چند غیر ملکی کمپنیوں کے فد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا، منیجر نے ورکرز کو کہا سب مشینیں صاف ہونی چاہئیں، منیجر نے مشین پر لگے سٹکرز ہٹانے کا کہا۔ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹکر نہیں ہٹایا تو منیجر نے خود ہٹا دیا۔ بادی النظر میں ورکرز نے سٹکرز کا بہانہ بنا کر تشدد کیا۔ سٹکر پر مذہبی تحریر درج تھی۔ سانحہ کے وقت فیکٹری مالکان غائب ہو گئے۔ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی گئی، واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سکیورٹی سخت کر دی ہے۔ سیالکوٹ سے نامہ نگار کے مطابق تھانہ اگوکی نے منیجر پریانتھا کمارا کے قتل پر آٹھ سو سے زائد افراد کے خلاف قتل، نعش کی بے حرمتی کرنے، آگ لگا کر جلانے، بلوا پر اکسانے، توڑ پھوڑ کرنے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ منیجر پریانتھا کمارا کے قتل کی پولیس تحقیقات میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں۔ پولیس کے مطابق ورکرز اور دوسرا عملہ غیرملکی منیجر کو سخت ناپسندکرتے تھے اور پریانتھا اور فیکٹری کے دوسرے عملے میں اکثر تکرار ہوتی رہتی تھی۔ ناقص صفائی پر پریانتھا کمارا نے ورکرز اور سپروائزر کی سرزنش کی تھی۔ گذشتہ شب 120 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ہفتہ کے روز مزید 20 گرفتار کیے گئے۔ یوں گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 140 کے قریب پہنچ گئی۔ واضح رہے تمام گرفتار افراد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر والے افراد بھی ان میں شامل ہیں۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ملزموں، سیلفی لینے، ویڈیو بنانے اور پتھر لا کر دینے والے ملزمان بھی قانون کے شکنجے میں آ گئے۔ پولیس نے بتایا کہ پریانتھا کے خلاف ورکرز اور سپروائزر نے مالکان سے کئی بار شکایت بھی کی تھی جبکہ واقعہ کے روز پریانتھا کمارا نے پروڈکشن یونٹ کا اچانک دورہ کیا تھا جہاں ناقص صفائی پر پریانتھا کمارا نے ورکرز اور سپروائزر کی سرزنش کی تھی۔ پولیس کے مطابق فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا نے ورکرز کو دیواروں پر رنگ کیلئے تمام اشیاء ہٹانے کا کہا تھا اور مقتول منیجر خود بھی دیواروں سے چیزیں ہٹاتا رہا، اسی دوران مذہبی پوسٹر بھی اتارا جس پر ورکرز نے شور مچایا تو مالکان کے کہنے پر پریانتھا کمارا نے معذرت کر لی تھی۔ پولیس تحقیقات کے مطابق جس سپروائزر کی پریانتھا نے سرزنش کی اسی نے بعد میں ورکرز کو اشتعال دلایا تھا۔ پریانتھا کمارا فیکٹری میں بطور جنرل منیجر پروڈکشن ایمانداری سے کام کرتا تھا اور فیکٹری قوانین پر سختی سے عمل درآمد کراتا تھا جس پر فیکٹری مالکان بھی اس کے کام سے خوش تھے۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیکٹری منیجر زبان سے ناآشنا تھا جس وجہ سے اسے کچھ مشکلات درپیش تھیں تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کے ساتھ تنازعہ حل کرایا اور فیکٹری منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کر کے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دیگر افراد کو اشتعال دلایا جس پر بعض ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کر دیا۔ جن افراد کو حراست میں لیا گیا ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں کچھ عرصہ قبل تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے سے پہلے خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ 160 سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو حاصل کر لی گئیں۔ لوگوں کے موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔ سیالکوٹ کی فیکٹری جہاںسری لنکا سے تعلق والے منیجرکو قتل کیا گیا وہاں کے اندر کے مناظر بھی سامنے آ گئے ہیں۔ فیکٹری منیجر اپنی جان بچانے کے لیے چار منزلہ عمارت کی چھت پر بھاگا، اوپر لگے سولر پینلز کے پیچھے چھپنے کی کوشش بھی کی۔ 20 سے 25 مشتعل افراد نے اوپر آ کر اس کو ڈھونڈا، مارا پیٹا، تیز دھار آلوں کے وار سے چہرہ مسخ کیا اور مارتے ہوئے نیچے لے گئے۔ فیکٹری منیجر کو عمارت کے اندر ہی قتل کر دیا گیا تھا جسے بعد میں گھسیٹ کر سڑک پر لایا گیا اور پھر آگ لگا دی گئی۔