• news

معشیت کی بہتری کا ایک حل،خود انحصاری پالیسی پر فوری عمل کیا جائے


تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
 معزز قارئین گزشتہ ہفتہ پاکستان کی معیشت پر بہت بھاری رہا۔ 3 دسمبر کو سٹاک مارکیٹ میں صرف ایک دن میں 2135پوائنٹس کی کمی ہوئی جبکہ پورے ہفتے میں مجموعی طور پر 100انڈکس 882پوائنٹس کی کمی سے 43ہزار 232پوائنٹس کم سطح پر بند ہوا۔ حصص کی قیمت کم ہونے سے سرمایہ کاروں کے 173 ارب روپے ڈوب گئے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھنے، اومیکرون کے بڑھتے خدشات اور شرح سود میں مزید اضافے کے خدشات کے باعث ملک اس صورتحال کا سامنا کر رہا ہے نومبر میں مہنگائی کی شرح 9.2فیصد سے بڑھ کر 11.5فیصد پر پہنچ گئی۔ ان حالات میں مشیر خزانہ نے کہا ہے کہ گھبرائیں نہیں مہنگائی جلد کم ہو گئی جبکہ حکومت آئندہ 10دن میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے 350ارب روپے کے لگ بھگ کا منی بجٹ لا رہی ہے پھر کیسے توقع کی جائے کہ مہنگائی میں کمی ہو گی۔اگرچے مشیر خزانہ شوکت ترین نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کو سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر موصول ہو گئے ہیں لیکن کرنٹ اکاونٹ خسارے اور تجارتی خسارے کے باعث روپے کی قدر ڈالر اور دیگر بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں کم ہوئی ہے گزشتہ کاروباری ہفتے کے آخری دن انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 176.76روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت فروخت 1.50روپے کے سے 179.50روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جبکہ یورو کی قیمت فروخت 200.50روپے اور پاونڈ سٹرلنگ کی قیمت فروخت 237روپے تک پہنچ گئی۔عالمی منڈی میں ایک اونس سونے کی قیمت میں 11ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن پاکستان میں ایک تولہ سونے کی قیمت 600روپے کمی سے 123400روپے پر بند ہوئی۔ان سارے زمینی حقائق کی روشنی سے صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے باعث ملک میں رواں مالی سال کمی ممکن نظر نہیں آتی اس کا ثبوت ہہ ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 67.59ڈالر کی کمی سے 70 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں لیکن پاکستان حکومت نے اس کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 16 نومبر والی قیمتوں پر برقرار رکھا۔جبکہ ایک لیٹر پیٹرول پر پٹرولیم لیوی 9.62روپے سے بڑھا کر 13.62روپے اور سیلز ٹیکس 2.34روپے مقرر کر دیا جو اس سے قبل صفر تھا اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کم ہونے کے باوجود پاکستان میں عوام کو ایک لیٹر پیٹرول 146.31 روپے میں مل رہا ہے۔ملک میں مہنگائی اور تجارتی خسارہ بڑھنے کی ذمے داری سٹیٹ بینک پر بھی عائد ہوتی ہے مارچ 2020سے جون 2020کی مدت میں سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو 13.25فیصد سے کم کر کے 7فیصد کیا جس کے ملک کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔اس کا اعتراف خود گورنر سٹیٹ بینک نے کیا کہ شرح سود میں کمی کے باعث نجی شعبہ کو بڑے پیمانے پر غیر ضروری قرضے ملے جس سے انہوں نے بڑے پیمانے پر غیر ضروری درآمدات کیں اور بڑے پیمانے پر گاڑیاں خریدیںجس سے تجارتی خسارہ بڑھا صرف جولائی 2021سے ستمبر 2021پاکستان نے 25ارب ڈالر کی در آمدات کیں جو کہ سالانہ 75ارب ڈالر بنتا ہے پاکستان نے صرف 3ماہ میں 15ارب ڈالر کے خوفناک تجارتی خسارے کا سامنا کیا یہ تجارتی خسارہ مالی سال 2018کے تجارتی خسارے سے بھی ذیادہ تھا۔جسے موجودہ حکومت نے دیوالیہ ہونے کے قریب خسارہ قرار دیا تھا سٹیٹ بینک نے 2ماہ قبل اس غلطی کا احساس کرتے ہوئے ڈسکاونٹ ریٹ کو 25بیسس پوائنٹس بڑھا کر 7.25 فیصد کیا تھا جو کہ ناکافی تھا بلکہ افراط زر کی شرح سے بھی کم ہے۔ڈسکاونٹ ریٹ میں زبردست کمی کر کے سٹیٹ بینک نے بینکنگ کمپنیز ایکٹ آرڈینس کی شق 26-A(4) کی خلاف ورزی کر تے ہوئے نفع نقصان کی   بنیاد پر کروڑوں کھاتے داروں کو دے جانے والے شرح منافع میں کمی کر کے تقریباً650ارب روپے کا نقصان پہنچایا جس سے ان کی قوت خرید کم ہوئی۔یہ بات اہم ہے کہ جون 2020کی مدت میں سٹیٹ بینک نے جو ڈسکاونٹ ریٹ میں جو کمی کی تھی وہ دنیا میں سب سے بڑی کمی تھی۔ڈسکاونٹ ریٹ میں کمی اور کم مارک اپ پر قرضے فراہم کر نے سے سے روپے کی قدر میں زبردست کمی ہوئی جس سے درآمدی اشیائ￿ سمیت پترولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔مہنگائی اوپر سے پیٹرول کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ سے عوام کے لیے سماجی میل ملاپ رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔نومبر کے دوران پیٹرول کی فروخت میں ستمبر کے مقابلے میں 9 فیصداور ڈیزل کی فروخت میں 3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔پیٹرول کی قیمت میں مسلسل اضافے سے عوام کے لیے پیٹرول خریدنا بھی مشکل ہو گیا عام ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے پیٹرول کی فروخت میں نومبر کے دوران اکتوبر کے مقابلے میں 9 فیصد کی کمی دیکھی گئی کتوبر کے دوران بھی پیٹرول کی فروخت میں 5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی عارف حبیب سیکورٹیز کی رپورٹ کے مطابق نومبر کے دوران ملک میں مجموعی طور پر 95 کروڑ 13 لاکھ لیٹر پیٹرول فروخت ہواجو اکتوبر سے ساڑھے نو کروڑ لیٹر کم ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ اور صنعتی اور زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے فیول کی فروخت بھی کم ہو گئی،، نومبر میں ڈیزل کی فروخت کا حجم 1 ارب 57 کروڑ 87 لاکھ لیٹر رہا،، جو اکتوبر سے 5 کروڑ 85 لاکھ لیٹر کم ہے جبکہ نومبر میں فرنس آئل کی فروخت بھی اکتوبر کے مقابلے میں 46 فیصد کمی سے صرف 1 لاکھ 80 ہزار ٹن رہ گئی۔رپورٹ کے مطابق نومبر میں ملک میں مجموعی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت کا حجم 17 لاکھ 50 ہزار ٹن رہا،، جو اکتوبر کے مقابلے میں 12.2 فیصد کم ہے۔۔ مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران مجموعی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت گزشتہ سال کے مقابلے میں 17.6 فیصد کے اضافے سے 96 لاکھ ٹن رہی۔۔ تاہم گزشتہ مالی سال کورونا پابندیوں کے باعث ٹرانسپورٹ اور صنعتیں کافی حد تک بند تھیں۔حکومتی اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی سے نومبر تک تجارتی خسارہ 20 ارب 59 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گیا، ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں تجارتی خسارے میں 111.74 فیصد اضافہ ہوا،جولائی سے نومبر تک 12 ارب 34 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی گئیں ،اس دوران درآمدات کا حجم 32 ارب 93 کروڑ ڈالرز رہا ،پانچ ماہ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں برآمدات میں 26.68 فیصد اضافہ ہوا ،جولائی سے نومبر تک گزشتہ برس کے مقابلے میں درآمدات میں 69.17 فیصد اضافہ ہوا ،نومبر 2021 میں 2 ارب 88 کروڑ ڈالرز کی برآمدات کی گئیں ،نومبر 2021 میں 7 ارب 84 کروڑ ڈالرز کی درآمدات ہوئیں ،نومبر 2021 میں تجارتی خسارہ 4 ارب 96 کروڑ ڈالرز رہا۔ جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کی معیشت کو درست کرنے کا صرف ایک حل ہے کہ معاشی خود انحصاری کی پالیسی تشکیل دے کر اس پر  فوری طور پر عمل کیا جائے اور جتنی جلدی ہو سکے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلیں ورنہ حالات کھبی درست نہیں ہونگے۔

ای پیپر-دی نیشن