سانحۂ سیالکوٹ: حکومت اس کیس کو ایک مثال بنائے
سانحۂ سیالکوٹ کی ابتدائی رپورٹ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ارسال کر دی گئی ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیکٹری کی مشین پر مذہبی حوالے سے ایک سٹکر لگا تھا، غیر ملکیوں کے وزٹ کی وجہ سے مینیجر نے سٹاف کو سٹکر ہٹانے کا کہا اور ملازمین کے انکار پر نے خود سٹکر ہٹا دیا۔ مبینہ طور پر سٹکر پر مذہبی تحریر درج تھی اور ملازمین نے سٹکر اتار کر پھینکنے کا بہانہ بنا کر تشدد کیا۔ رپورٹ کے مطابق، سانحہ کے وقت فیکٹری مالکان غائب ہو گئے۔ وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی گئی ہے اور واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ وہ افراد جنہوں نے ملازمین کو اشتعال دلایا ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے اور پولیس نے مرکزی ملزموں کو گرفتار کر کے مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ فیکٹری مینیجرز کی معاونت سے واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی۔ سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ملازمین کی سکیورٹی سخت کر دی ہے۔
سری لنکن مینیجر پریانتھا کمارا کے قتل کی پولیس تحقیقات میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں۔ پولیس کے مطابق، ملازمین اور دوسرا عملہ غیرملکی مینیجر کو سخت ناپسندکرتے تھے اور پریانتھا اور فیکٹری کے دوسرے عملے میں اکثر تکرار ہوتی رہتی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ پریانتھا کے خلاف ملازمین اور سپروائزر نے مالکان سے کئی بار شکایت بھی کی تھی۔ واقعہ کے روز پریانتھا کمارا نے پروڈکشن یونٹ کا اچانک دورہ کیا جہاں ناقص صفائی پر اس نے ملازمین اور سپروائزر کی سرزنش کی۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ فیکٹری منیجر زبان سے ناآشنا تھا تاہم فیکٹری مالکان نے ملازمین کے ساتھ تنازعہ حل کرایا اور پریانتھا کمارا نے غلط فہمی کا اظہار کر کے معذرت بھی کی لیکن کچھ ملازمین نے بعد میں دوسروں کو اشتعال دلایا جس پر ملازمین نے مینیجر کو مارنا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں آٹھ سو سے زائد افراد کے خلاف قتل، نعش کی بے حرمتی، آگ لگا کر جلانے، بلوا پر اکسانے، توڑ پھوڑ کرنے اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ پولیس نے تحقیقات کے لیے 160 سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیوز حاصل کر لی ہیں اور موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔
ادھر، وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سری لنکن صدر گوتابایا راجا پکسے کو یقین دلایا کہ سانحۂ سیالکوٹ میں ملوث مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹویٹر پر وزیراعظم عمران خان نے لکھا کہ متحدہ عرب امارات میں موجود سری لنکن صدر سے ٹیلیفون پر رابطہ ہوا ہے۔ سیالکوٹ میں پریانتھا کمارا کے قتل پر پاکستانی قوم کو بھی غصہ ہے اور قوم سری لنکا سے شرمندہ بھی ہے۔دوسری طرف، سری لنکن صدر نے ٹویٹر پر لکھا کہ سیالکوٹ میں پیش آنے واقعے پر گہری تشویش ہے۔ ہماری حکومت کو وزیراعظم عمران خان پر مکمل بھروسا ہے کہ پاکستان انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور ملک میں باقی سری لنکن کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنائے گا۔ علاوہ ازیں، سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکسے نے اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے، مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنا عہد پورا کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ پاکستان میں مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن مینیجر پر بہیمانہ اور جان لیوا حملے پر صدمہ پہنچا۔
یہ واقعہ یقینا بہت ہی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس واقعے کی وجہ سے نہ صرف اسلام اور اس کے پیروکاروں کی بدنامی ہوئی بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کو اس واقعے میں ملوث تمام افراد کے خلاف ہر پہلو کو سامنے رکھ کر ٹھوس کارروائی کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی سے بھی کسی قسم کی رعایت نہیں کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سیالکوٹ کھیلوں اور جراحی کے سامان کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک بڑے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور اس واقعے کی وجہ سے اس شہر کی کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا حکومت اس واقعے کو ایک مثال بنائے اور اس میں ملوث تمام افراد کو کیفر کردار تک پہنچا کر دنیا کو یہ پیغام دے کہ پاکستان میں کسی کو بھی کسی بھی وجہ سے قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اور پُر امن بقائے باہمی کے لیے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کو آگے بڑھ کر لوگوں کی تربیت کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے شدت پسندی کے رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو ہم بین الاقوامی سطح پر اپنے اچھے دوستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے کیونکہ دنیا میں کہیں بھی ایسے واقعات کو برداشت نہیں کیا جاتا، لہٰذا پاکستان کو ایک مضبوط، مستحکم اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے حکومت اور معاشرے کے اہم طبقات کو مل کر شدت پسندی کے عفریت کو کسی بھی قیمت پر قابو کرنا ہوگا۔