• news

23مارچ کو اسلام آباد کی طرف مہنگائی مارچ

اسلام آباد+ لاہور (خبر نگار+ خصوصی نامہ نگار) پی ڈی ایم کے سربراہ  فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو اسلام آباد کی طرف مہنگائی مارچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک بھر سے لوگ آکر 23 مارچ کو اسلام آباد میں احتجاج میں شرکت کریں گے۔ اسمبلیوں سے استعفوں کا معاملہ بھی اجلاس میں زیر غور آیا ہے۔ اسمبلیوں سے استعفوں کا کارڈ کب اور کیسے استعمال کرنا ہے اپنے وقت پر فیصلہ کرینگے۔ سیالکوٹ جیسے واقعات کی غیرمشروط مذمت کرتے ہیں۔ سیالکوٹ واقعہ کی پی ڈی ایم اجلاس میں بھی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں  نواز شریف، شہبازشریف، سابق وزیراعظم شاھد خاقان عباسی، محمود خان اچکزئی، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، سینیٹر ساجد میر، عبدالغفور حیدری، اکرم خان درانی، شاہ اویس نورانی، حافظ حمداللہ، احسن اقبال، میر کبیر، جہاں زیب جمال دینی، اسحاق ڈار، عابد شیر علی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں تمام پارٹی سربراہوں اور ان کے نمائندوں نے شرکت کی اور  ملک کی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔  پی ڈی ایم  کے قائدین کیساتھ باہمی مشاورت کے بعد کئے فیصلوں کے حوالے سے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2018 میں الیکشن کے نتیجے میں عوامی مینڈیٹ سے محروم اور جعلی ووٹ کی بنیاد پر دھاندلی کی پیداوار حکومت معرض وجود میں آئی، یہی وجہ تھی کہ وہ نااہل اور عوامی سپورٹ سے محروم تھی لہذا آج وہ ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ لیکن اس کی سزا بھی پوری قوم مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور غربت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ 23مارچ کو اسلام آباد میں مہنگائی مارچ ہو گا۔ پورے ملک کے کونے کونے سے قوم اسلام آباد کی طرف آئیں گے اور یہاں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے حوالے سے بہت بڑا مظاہرہ ہو گا جس میں پوری قوم شریک ہو گی۔ اس مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں صوبے کی سطح پر پی ڈی ایم کے اجلاس طلب کیے جائیں گے جس میں حکمت عملی طے کی جائے گی۔ پنجاب میں شہباز شریف، خیبرپی کے  فضل الرحمن، بلوچستان میں محمود خان اچکزئی اور سندھ میں اویس نورانی اس سلسلے میں تیاریوں کے لیے اجلاس طلب کریں گے۔  حکمت عملی کے حوالے سے اعتماد میں لینے کے لیے وکلا برادری، سول سوسائٹی اور تجارتی حلقوں کی مشاورت سے بڑا سیمینار منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔ البتہ اس سوال کا واضح جواب نہیں دیا کہ 23 مارچ کو اسلام آباد میں دھرنا ہو گا یا لانگ مارچ۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں اسمبلیوں سے استعفوں کا مسئلہ بھی زیرغور آیا کیونکہ اصولی طور پر اس حوالے سے اتفاق رائے موجود ہے لیکن یہ کارڈ ہم نے کب اور کس طرح سے استعمال کرنا ہے، اس کا فیصلہ ہم اپنے وقت پر اپنی مرضی سے کریں گے۔  اجلاس کے  ارکان نے واقعہ سیالکوٹ کی بھرپور مذمت کی۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کا کسی بھی شہری کو حق نہیں پہنچتا۔ آئندہ اس طرح کے واقعے کی روک تھام ہونی چاہیے اور اس قسم کے واقعات کی کسی بھی پہلو سے حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ اجلاس میں تلخی کی بات پر آپ کے میڈیا سے احتجاج کرتا ہوں کیونکہ آپ نے غلط خبر چلائی۔ لاہور سے خصوصی نامہ نگار کے مطابق 23 مارچ کو اسلام آباد میں پریڈ ہوتی ہے اور قومی نوعیت کا دن ہوتا ہے، یہ دن منتخب کرنے کی کوئی خاص وجہ ہے؟  اس سوال پر فضل الرحمان نے کہا کہ مسئلہ بھی تو قومی نوعیت کا ہے اور ہم بھی قوم کا حصہ ہیں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ مارچ کی منزل ڈی چوک ہو گا یا کوئی اور مقام تو انہوں نے یہ مصرعہ پڑھا ’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا‘‘۔ استعفوں کے لیے اے این پی اور پی پی سے رجوع کرنے کے امکان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے نزدیک جو معاملات اہم ہیں ہو سکتا ہے ہمارے نزدیک ان کی اتنی اہمیت نہ ہو۔ قبل ازیں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس  فضل الرحمان کی زیر صدارت ہوا جس میں میاں نواز شریف،  شہباز شریف اور اسحاق ڈار ویڈیو لنک کے ذریعے  شریک ہوئے۔  اجلاس میں پی ڈی ایم سٹیئرنگ کمیٹی کی سفارشات پر غور کیا گیا۔ اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو میں فضل الرحمان نے کہا کہ ہم سیالکوٹ جیسے واقعات کی غیر مشروط مذمت کرتے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ریاست، آئین اور قانون کو حرکت میں آنا پڑے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ میری اپنی حکومت بھی ہوتی تو یہی کہتا کہ کوتاہی ہوئی ہے۔ مذہب کے حوالے سے کوئی واقعہ ہو تو اس کو بہت ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے قومی سوچ کو سامنے لانا ہوگا۔ بندوق کے ذریعے کسی نظریے کی بات کرنے کی شروع سے مخالفت کر رہے ہیں۔ ہم آئین قانون اور جمہوریت کی صف میں کھڑے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن