ذمیوں کی جان و مال مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار پائی
علامہ شبلی نعمانی
حضرت عمرؓ نے ذمی رعایا کو جو حقوق دئیے اس کا مقابلہ اگر زمانے کی سلطنتوں سے کیا جائے تو کسی طرح کا تناسب نہ ہوگا۔ حضرت عمرؓ کے ہمسایہ میں جو سلطنتیں تھیں وہ روم و فارس تھیں ان دونوں سلطنتوں میں غیر قوموں کے حقوق، غلاموں سے بھی بد تر تھے‘شام کے عیسائی باوجود یکہ رومیوں کے ہم مذہب تھے‘تاہم ان کو اپنی مقبوضہ زمینوں پر کسی قسم کا مالکانہ حق حاصل نہیں تھا۔ بلکہ وہ خود ایک قسم کی جائیداد خیال کئے جاتے تھے‘چنانچہ زمین کے انتقال کے ساتھ وہ بھی منتقل ہوجاتے تھے اور ملک سابق کوان پر جو مالکانہ اختیارات حاصل تھے وہی قابض حال کو حاصل ہوجاتے تھے۔ یہودیوں کا حال اور بد تر تھا بلکہ اس قابل نہ تھا کہ کسی حیثیت سے ان پر رعایا کااطلاق ہوسکتا۔ فارس میں جو عیسائی تھے ان کی حالت اور بھی رحم کے قابل تھی۔
حضرت عمرؓ نے جب ان ممالک کو زیرنگیں کیا تو دفعۃًوہ حالت بدل گئی۔ جو حقوق ان کو دیئے گئے اس کے لحاظ سے گویا وہ رعایا نہیں رہے بلکہ اس قسم کا تعلق رہ گیا جیسا دو برابرکے معاہدہ کرنے والوں میں ہوتا ہے مختلف ممالک کی فتح کے وقت جو معاہدے لکھے گئے ان میں بعض مفصل اور باقی مجمل ہیں۔پھر دوبارہ نقل کئے جانے پراکثر معاہدوں میں کسی مفصل معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے بیت المقدس کا معاہدہ جو خود حضرت عمرؓ کی موجود گی میں لکھا گیا حسب ذیل ہے۔
اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا رسولؐ خداکے خلفاء کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن ولید اور عمروبن العاص اور عبدا لرحمٰن بن عوف اور معاویہؓبن ابی سفیان اور یہ 15ھجری میں لکھا گیا۔
اس فرمان میں صاف تصریح ہے کہ عیسائیوں کی جان‘مال اور مذہب ہر طرح سے محفوظ رہے گا اور یہ ظاہر ہے کہ کسی قوم کو جس قدر حقوق حاصل ہوسکتے ہیں انہی تین چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں،گرجے اور چرچ کی نسبت یہ تفصیل ہے کہ نہ تو وہ توڑے جائیں گے نہ ان کی عمارات کو کسی طرح کا نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کے احاطوں میں دست اندازی کی جائے گی۔ مذہبی آزادی کی نسبت دوبارہ تصریح ہے کہ لایکرہون علی دینہم عیسائیوں کے خیال میں چونکہ حضرت عیسٰی کو یہودیوں نے صلیب دے کر قتل کیا تھا اور یہ واقعہ خاص بیت المقدس میں پیش آیاتھا۔ اس لئے ان کی خاطر سے یہ شرط منظورکی کہ یہودی بیت المقدس میں نہ رہنے پائیں گے۔ یونانی باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے لڑے تھے اور در حقیقت وہی مسلمانوں کے اصلی عدوتھے۔ تاہم ان کے لئے یہ رعایتیں ملحوظ رکھیں کہ بیت المقدس میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں اور نکل جانا چاہیں تو نکل سکتے ہیں دونوں حالتوں میں ان کو امن حاصل ہوگا۔ اور ان کے گرجاؤں اور معاہدوں سے کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بیت المقدس کے عیسائی اگر یہ چاہیں کہ وطن سے نکل کررو م میں سے جاملیں تو اس پر بھی ان سے کچھ تعرض نہ کیاجائے گا۔ بلکہ ان کے گرجے وغیرہ جو بیت المقدس میں ہیں سب محفوظ رہیںگے۔ کیا کوئی قوم‘مفتوحہ ملک کے ساتھ اس سے بڑھ کر منصفانہ برتاؤکرسکتی ہے؟
سب سے مقدم امریہ ہے کہ ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قراردیا۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذی کو قتل کر ڈالتاتھا توحضرت عمرؓ فوراًاس کے بدلے مسلمان کو قتل کرادیتے تھے۔ امام شافعیؒ نے روایت کی ہے کہ قبیلہ بکر بن دائل کے ایک شخص نے حیرۃکے ایک عیسائی کو مارڈالا۔حضرت عمرؓنے لکھ بھیجا کہ قاتل‘مقتول کے وارثوں کو دے دیاجائے چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نام حنین تھا حوالہ کیا گیا اور اس نے اس کو قتل کر ڈالا۔مال اور جائیداد کے متعلق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے؟کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی باجائزقرار دیاگیا۔
بندوبست مالگزاری میں ذمیوں کا خیال
مال گزاری جو مشخص کی گئی وہ نہایت نرم اور ہلکی تھی ۔ہر سال یہ معمول تھا کہ جب عراق کا خراج آتا تھا تو 10اشخاص کوفہ اور 10بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے اور حضرت عمرؓ ان سے چار دفعہ پوچھ کے یہ قسم لیتے تھے کہ مالگزاری کے وصول کرنے میں کچھ سختی تو نہیں کی گئی ہے۔
ذمیوں سے ملکی انتظامات میں مشورہ
حضرت عمرؓ ہمیشہ ان انتظامات کو جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتاتھا، ذمیوں کے مشورے اور استصواب کے بغیر مکمل نہیں کرتے تھے۔جان ومال و جائیداد کے متعلق قواعدپر نہایت مضبوطی کے ساتھ پابندی کی جاتی تھی۔ شام کے ایک کاشت کار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کردیا۔ حضرت عمرؓ نے بیت المال سے 10ہزار درہم اس کو معاوضہ دلوائے۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج باب الجزیہ میں روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ جب شام سے واپس آرہے تھے تو چند آدمیوں کو دیکھا کہ دھوپ میں کھڑے ہیں اور ان کے سر پر تیل ڈالا جارہاہے لوگوں سے پوچھا کہ کیا ماجراہے؟ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جزیہ نہیں ادا کیا اس لئے ان کو سزادی جاتی ہے۔حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ آخر ان کا کیا عذرہے؟لوگوں نے کہا’’ناداری‘‘فرمایا چھوڑدو‘اور ان کو تکلیف نہ دو۔ میں نے رسولؐاللہ سے سنا ہے،یعنی آنحضرتؐنے فرمایا ہے کہ ’’لوگوں کو تکلیف نہ دو‘جولوگ دنیامیں لوگوں کو عذاب پہنچاتے ہیں خدا قیامت میں ان کو عذاب پہنچائے گا۔حضرت عمرؓنے وفات کے قریب خلیفہ ہونے والے شخص کے لئے ایک مفصل وصیت فرمائی تھی۔
اس وصیت نامہ کو امام بخاری‘ ابوبکر بہقی‘ جاحظ اور بہت سے مورخین نے نقل کیا ہے۔ اس کا اخیر فقرہ ہے۔یعنی میں ان لوگوں کے حق میں وصیت کرتا ہوں جن کو خدا اور رسول کا ذمہ دیا گیا ہے۔ (یعنی ذمی) کہ ان سے جو عہد ہے وہ پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ مرتے وقت بھی ذمیوں کو نہ بھولے۔