سری لنکا! ہم شرمندہ ہیں
دنیا بھر میں پاکستان کے خیر خواہ ممالک کا شمار کرنے لگیں توان کی تعداد ڈبل فگر سے بھی بہت کم ہو گی۔ پاکستان کا ہر صورت ساتھ دینے والوں میں ترکی، ملائشیا، اور سری لنکا کے بعد چوتھے ملک کو تلاش کرنے کے لیے چراغ رخِ زیبا کی ضرورت ہو گی۔ یہ جو برادر اسلامی ملک کی اصطلاح ہے اس کی حیثیت ڈرامے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایک ’’برادرِ عزیز‘‘ جو تین ارب ڈالر کا قرض دیا ہے اسکی شرائط پڑھ لیں تو برادر ہڈ فلسفے کی گردان کرنے والوں کے بھی چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ترکی اور ملائشیا تو واقعی اسلامی برادر ہڈ کی ایک مثال ہیں۔ سری لنکا اور چین نان مسلم ہوتے ہوئے بھی پاکستان کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ سری لنکا کی ٹیم پر پاکستان میں حملہ ہوا جس کے بعد پاکستان میں کھیل کے میدان بربادوویران ہو گئے۔ اور یہ سری لنکا ہی تھا جس نے پاکستان کے کھیل کے اجڑے میدانوں کو آباد کرنے کیلئے سب سے پہلے اپنی ٹیم پاکستان بھجوائی۔ پاکستان نے بھی ہمیشہ سری لنکا کا کسی بھی دنیا کے ملک سے بڑھ کر ساتھ دیا۔ پاک فوج نے سری لنکا سے تامل دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے 25سال تک تگ و دو کی۔ گذشتہ دنوں پاکستان میں پریانتھا کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے سیالکوٹ ایک فیکٹری میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جِلا دیا گیا۔ اس ہولناک ،خوفناک، اندوہ ناک اور شرمناک واقعہ سے سری لنکا کے عوام کو کیا پیغام گیا ہوگا۔ اقلیتوں کے خلاف سب سے زیادہ مظالم بھارت میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کا سوفٹ امیج دنیا کے سامنے آتا ہے تو زیادہ دیر قائم نہیں رہ پاتا۔ کبھی لاہور میں عیسائیوں کی بستی جلا دی جاتی ،کبھی کوہاٹ میں مندر کو آگ لگا دی جاتی ہے، کبھی اینٹوں کے بٹھے میں عیسائیوں نوجوانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے،کبھی بہاولپور میں ہندوئوں کی املاک کو تباہ کر دیا جاتا ہے۔ یوحنا آباد جیسے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ سندھ میں ہندو قومیت پر تشدد اور جبری مسلمان بنانے کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ دشمن قوتیں تو پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے سرگرم اور جھوٹے سچے جواز پیدا کرنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ بھارت تو سب سے آگے ہے۔ سیالکوٹ کے واقعہ کو اسی کی طرف سے اپنا مکروہ اور بھیانک چہرہ چھانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بھارت یا دوسرے پاکستان مخالف ممالک کو ہم موقع ہی کیوں فراہم کریں۔ ناموسِ رسالتؐ قانون کے تحت مجرم کی زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔ اگر اپنے مذموم مقاصد کیلئے کوئی کسی پر بہتان لگا دے اور یہ بہتان ثابت بھی ہو جائے۔ ایسا ہمارے ہاں کئی بار ہوا ہے مگر الزام لگانے والوں کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔ اور پھر اسے ظلم کی انتہا کیوں نہ کہا جائے کہ اگر کسی نے واقعتا مذہب کی توہین کی ہے تو اس کو ہجوم خود عدالت لگا کر اور خود ہی سزا سنائے اور اس پر عمل بھی کر دے۔ سیالکوٹ کے واقعہ میں بادی النظر میں تو توہین مذہب کا پہلو سامنے نہیں آتا اگرایسا ہوا بھی ہے تو معاملہ کورٹ میں لے جانا چاہیے تھا۔ کچھ جذباتی لوگوں کی حماقت سے پوری قوم اور ملک کٹہرے میں ہے۔عمران خان اسلاموفوبیا کی بات کرتے ہیں۔ ایسے واقعات کو لے کر مغربی دنیا پوچھ رہی ہے یہ کونسا فوبیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ اس واقعہ پر کسی بھی محب وطن پاکستانی کی طرح رنجیدہ ہیں اور ملزموں کے خلاف سخت ایکشن کی بات کر رہے ہیں۔ ایسے دعوے ماضی میں بھی ہوتے رہے جو وقت کے ساتھ ماضی کی دھول میں چھپ گئے۔ اگر پاکستان سے شدت پسندی کا خاتمہ کرنا ہے تو کسی مقام سے تو شروع کرنا ہوگا کیونکہ اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس بنایا جائے اور مجرموں کو صفائی کا پورا موقع دینے کے بعد نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر شعور پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے علما کرام اور سکولوں، کالجوں کے اساتذہ بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں مگر سب سے پہلے تو علمائے کرام کی تربیت کی ضرورت ہے۔ کسی مسجد میں امامت اور خطابت کے لیے کوئی طریقہ کا راور تعلیمی معیار مقرر ہونا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مساجد اور امام بارگاہوں میں نیم خواندہ افراد کام چلا رہے ہیں اور یہی لوگ مسالک میں نفرتوں اور شدت پسندی کا باعث بن رہے ہیں۔جب کہ اسکے برعکس ترکی ، مراکش ،تیونس ، ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں مساجد کے امام اور خطیب گورنمنٹ کی طرف سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ ان کی ایک استاد کے برابر تنخواہ مقرر ہوتی ہے اور مسجد میں ہونے والے تمام اخراجات اور الیکٹرانک آلات جیسے فیکس مشین، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولیات حکومت فراہم کرتی ہے۔جبکہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 55ہزار مدرسے کام کر رہے ہیں۔ جن میں صرف چند ہزار رجسٹرڈ ہیں اور ان میں زیر تعلیم طالب علم کسی بھی سکول بورڈ سے سرٹیفائیڈ نہیں ہوتے۔ ترکی اور ملائشیا میں حفظ قرآن کے لیے کم از کم عمر چودہ سال مقرر کی گئی ہے۔یعنی کوئی بھی طالب علم مڈل سکول پاس کرکے ہی حافظ قرآن کے لیے رجسٹریشن کرا سکتا ہے۔قارئین کرام ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو اپنا احتساب شروع کرنا ہوگا۔ وگرنہ آج کے جدید معاشرے میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں۔