ملکی حالات ایسے نہیں جیسا کہا جا رہا ہے
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ اگر ہم انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم جج رہنے کے قا بل نہیں ہیں۔ انہوں نے پنجاب بار میں سیمینار سے خطاب کرتے ہونے مزید کہا کہ مُلکی حالات ایسے نہیں ہیں جیسا کہ کہا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی اخبارات میں ایک صفحہ کرائم کے لیے محضوص ہو چکا ہے۔ بیس بائیس پہلے کرائم کی خبروں کے لئے آدھا صفحہ مخصوص تھا مگر اب ایک پورے صفحہ پر بھی مکمل خبریں نہیں آتیں۔ جس کی وجہ سے کئی بار بڑے اور خطرناک جرائم کی خبروں کے لیے صفحہ اول اور دیگر صفحات پر بھی روزانہ خبریں ہو تی ہیں۔ نیوز بلیٹن میں ہر خبر الزامات، گالی گلوچ، اغواء زیادتی، چوری ڈکیتی، سمگلنگ، کرپشن، آگ لگنے، چھت گرنے، خود کشیاں کرنے سے لیکر قتل و غارت اور دہشت گردی کے وا قعات، حادثات اور سا نحات سے بھری خبروں میں وحشت اور دہشت ہو تی ہے۔ ان خبروں سے ہر نارمل آدمی کا بی پی ہا ئی ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے ایک مائند سیسٹ بنا دیا ہے کہ پاکستان میں کچھ بھی اچھا نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے سب حکمران، اپوزیشن اور بھانت بھانت کے سیاستدان سب کے سب کرپٹ ہیں۔ ان میں کو ئی بھی صادق امین نیک صا لح اور دیانتدار نہیں ہے۔ اگر ان سب کی کہا نیاں، ان کے پس منظر اورکارکردگیوں کی حقیقی رپورٹ مرتب کی جائے تو عوام کے ہوش اُڑ جائیں جو بیوقوفوں کی طرح انکی خاطر لڑتے مرتے ہیں۔ ہر خبر کسی حادثے، المیے یا دہشت پر مبنی ہو نا ضروری نہیں۔ خبر اچھی یا بُری ہو سکتی ہے لیکن ہمارے ہاں کبھی اچھی خبر نہیں آتی۔ سارا نیوز بلیٹن دردناک خبروں سے بھرا رہتا ہے۔ اچھی خبروں میں صدر وزیر اعظم کی اچھی کارکردگی کی خبر بھی آ سکتی ہے لیکن اگر اچھی کارکردگی ہی نہ ہو تو بچارے رپورٹرز کیا کریں۔ عوام کا بلبلانا تو بنتا ہے کہ برسہا برس تو وزیر اعظم کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ رہی مگر مو جودہ وزیر اعظم نے قرضوں اور مہنگا ئی میں جکڑے ملک میں یکلخت اپنی تنخواہ آٹھ لاکھ اور مرا عات پچا س لاکھ کر لیں جبکہ دیگر اخراجات پر کروڑوں روپیہ اٹھایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم گھر سے ایوانِ وزیر اعظم کے لیے ہیلی کاپٹر پر چڑھ کر آتے ہیں اور مثا لیں نیو زی لینڈ کے سا بق وزیر اعظم کی دیتے رہے کہ جی وہ سا ئیکل پر آتا ہے۔ وزیر اعظم روزانہ سوٹ بدلتے ہیں ۔ صبح واک کے لیے ٹریک سوٹ، پھر شلوار قمیض واسکٹ، پھر کسی دوسری تقریب کے لیے دوسرا شلوار قمیض اور رات کو سلیپنگ سوٹ مگر بشریٰ بی بی کہتی ہے کہ وزیر اعظم کے پاس صرف چھ سات پُرانے سوٹ ہیں۔ کسی نے سوٹ گنیِ تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم ابتک ڈیڑھ دو ہزار سوٹ بدل چکے ہیں۔ وزیراعظم بکثرت ریا ستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو شاید وہ نہیں جانتے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عثمان غنیؓ خلیفہء وقت تھے مگر تنخواہ نہیں لیتے تھے مگر حیرت ہے کہ جدید ریا ستِ مدینہ کا وزیر اعظم آٹھ لاکھ تنخواہ اور کروڑوں روپے کے دیگر اخرا نات پر چل رہا ہے۔ ریا ست مدینہ کو کسی سے امداد، فنڈز، قرضے نہیں ملتے تھے جبکہ پاکستان کو ہر سال کروڑوں ڈا لرز کی امدادیں اور قرضے ملتے ہیں۔ حال ہی میں گورنر پنجاب نے بتا یا کہ ہم پو را ملک آئی ایم ایف کو دان کر چکے ہیں۔ ملک میں جو ریونیو اکھٹا کیا جاتا ہے۔ تا ریخ میں پہلی بار اتنا ریونیو اکھٹا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے دس سال میں بھی اتنا ریو نیو اکھٹا نہیں کیا ہو گا۔ اتنے زیا دہ ٹیکس لگا دئیے ہیں کہ عوام کا خون پسینہ پانی سب نکال لیا ہے۔ مہنگا ئی کی وجہ سے عوام نزا ع کی حالت میں پہنچ چکے ہیں۔ ہر ہفتے بجلی گیس پٹرول آئل آٹا چینی گھی گوشت مہنگا کر دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں یہ صورتحال نہیں۔ وزیر اعظم ہر تقریر میں کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔ بس چار چھ ماہ بعد مہنگا ئی کم ہو جائے گی لیکن حقیقت یہ کہ تین سال میں چار سو گنا مہنگا ئی کر کے بھی عوام سے مطا لبے ہو تے ہیں۔ اب تو سا نسوں اور آکسیجن تک پر ٹیکس لگ چکا ہے۔ کو رونا میں آکسیجن جس قدر مہنگی کی گئی۔ اُس نے بیماروں اور ان کے تیماداروں کی چیخیں نکا ل دے ہیں۔ وزیر اعظم کا روزانہ فو کس بھا شن پر ہو تا ہے۔ عوام کو بھاشن کی نہیں، راشن کی ضرورت ہے ۔ آجتک یہ نہیں سمجھ آیا کہ آئی ایم ایف سے کروڑوں اربوں ڈا لرز کے قرضے، غیر ملک امدادیں، کھربوں روپیہ ٹیکسوں کی مد میں، اورسیز پاکستانیوں کی بھیجی ہو ئی کروڑوں ڈالرز کی رقوم اور پاکستانیوں کے چندے، زکوٰتیں، صدقے خیراتیں اور تحا ئف کی مد میں دیا گیا اربوں آخر کو ن ڈا ئن کھا جاتی ہے کہ نہ ترقیاتی کام ہو تے۔ نہ مستحقین کی مدد ہو تی۔ نہ کسی کو و ظائف ملتے۔ ہر شخص تہی دست ہے۔ایسی تبدیلی آئی ہے کہ پورا ملک ہل گیا ہے وزیر اعظم کسی کو دینے کی بجائے الٹا ہر وقت عوام سے ما نگتے رہتے ہیں۔ کیا شا ئستہ پرویز ملک کی کا میابی پی ٹی آئی کی نا کانی کا منہ بو لتا ثبوت نہیں ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے صحیح ہی تو کہا کہ ملک کے حالات ایسے نہیں جیسا کہ بتا یا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس صا حب! جب آپ نے خطرے کی بُو بھانپ لی ہے تو از خود نوٹس لے کر لا قا نو نیت، نا انصافی، عدمِ مسا وات سے قوم کو نجا ت دلا ئیے۔