• news

پیر تک اصل بیان حلفی ورنہ فرد جرم ، رانا شمیم بیرون ملک نہیں جا سکتے : جسٹس اطہر

 اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر کی اشاعت پر توہین عدالت کیس میں رانا شمیم کو اصل بیان حلفی جمع کرانے کیلئے مزید مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سماعت تک اصل بیان حلفی جمع نہ کرانے پر فرد جرم عائد کردیں گے۔ رانا شمیم، اخبار کے ایڈیٹر، صحافی، اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی اور دیگر عدالت پیش ہوئے۔ جبکہ اخبار کے چیف ایڈیٹر  کی طرف سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا گیا کہ طبیعت ناسازی کی وجہ سے عدالت پیش نہیں ہوسکتا۔ عدالت نے  رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے۔ رانا شمیم نے کہاکہ میرے وکیل راستے میں ہیں وہ ابھی پہنچنے والے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے وکیل کہاں پر ہیں؟، معاون وکیل نے بتایا کہ جی ٹین اشارے پر ہیں وہ ابھی پہنچنے والے ہی ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لطیف آفریدی کی بہت قربانیاں ہیں وہ اس عدالت کی جانب سے بھی معاون ہوں گے۔ رانا شمیم نے کہا کہ میں نے چار دن پہلے جواب دے دیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ وہ ابھی عدالت میں لطیف آفریدی  نے جمع کرانا ہے۔ عدالت نے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ سے کہاکہ نیوز پیپر میں رپورٹنگ کا کیا معیار ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ سماعت پر کہا میں نے بیان حلفی ان کو نہیں دیا، کیا صرف اسی طرح سے ہی وہ نیوز پبلش کر سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے رپورٹنگ کے معیار سے متعلق دلائل دیئے اور کہاکہ توہین عدالت کے حوالے سے سیکشن موجود ہے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے گزشتہ سماعت کا تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہاکہ یہاں دو اہم شخصیات ہیں جن کا ورژن نہیں لیا گیا، اس خبر میں نہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور نہ ہی عدالت کا ورژن لیا گیا، حقائق کو چیک کئے بغیر کیا ایمرجنسی تھی بیان حلفی یا خبر شائع کرنے کی۔ رانا شمیم نے کہا کہ بیان حلفی پرائیویٹ دستاویز تھی، میں نے شائع کرنے کا نہیں کہا، مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ بیان حلفی ذاتی تھی تو صحافی سے سوال کیوں نہیں پوچھا گیا، عدالت نے کہاکہ ریما عمر صاحبہ آئی ہیں؟، انہوں نے بریف جمع کرایا تھا، ان پروسیڈنگ کی ٹرانسپیرنسی کے لیے انہیں عدالتی معاون بنایا تھا۔ اسی دوران رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ لطیف صاحب، ویلکم ٹو دس کورٹ، چیف جسٹس نے لطیف آفریدی کی آمد پر ان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ان کے پاس یہ سوٹی کیوں ہے؟ یہ رول آف لاء  کی نشانی ہے، ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ یہاں آئے ہیں، آپ صرف رانا شمیم کے وکیل نہیں ہوں گے، ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے،  ایک بیانیہ بننا شروع ہو گیا کہ کسی سیاستدان کو الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے دینا تھا، چیف جسٹس نے کہاکہ رانا شمیم نے تین سال بعد ایک بیان حلفی کیوں دیا؟ کسی مقصد کے لیے ہو گا؟، یو کے کے کسی فورم پر جمع ہوا ہو گا، اسے کوئی لاکر میں تو نہیں رکھتا، عام عوام کو تاثر دیا گیا کہ اس عدالت کے ججز پر چیف جسٹس پاکستان نے دباؤ ڈالا، اس سٹوری شائع ہونے کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے کیونکہ اپیل زیر سماعت ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ لطیف آفریدی عدالت کی جانب سے بھی معاون ہیں، عدالت نے لطیف آفریدی سے کہاکہ میں نے آپ کے کلائنٹ سے پوچھا انہوں نے یوکے میں کیوں بیان حلفی دیا؟، اگر ان کا ضمیر جاگ گیا تھا تو کسی فورم پر جمع کراتے  مقصد کیا تھا؟ لاکر میں تو کوئی نہیں کرتا، میں آپ کو اس کیس کے حوالے بتانا چاہتا ہوں، اپیلیں یہاں پر زیر سماعت ہیں۔ میرا کنسرن کسی اور کورٹ کے ساتھ نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے، میں نے پروسیڈنگ اسی لیے شروع کیں کہ کسی کی ہمت نہیں کہ وہ اس ہائی کورٹ کے کسی جج کو اپروچ کر سکے، ہمارے فیصلے بولتے ہیں۔ اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، آپ کے کلائنٹ نے ثابت کرنا ہے اس کا عمل بدنیتی پر مبنی نہیں تھا، برطانیہ میں بیان حلفی کیوں ریکارڈ کیاگیا، رانا شمیم نے بیان حلفی کہاں جمع کرانا تھا۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ججز پر ایسے الزامات لگائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس کیس کو رانا شمیم کے وکیل کی حیثیت سے نہیں عدالتی معاون کی حیثیت سے دیکھیں، لوگوں کا اعتماد اس عدالت پر ہے، اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ مرحوم جسٹس وقار سیٹھ نے کبھی نہیں کہاکہ ان کو کسی نے پریشرائز کیا، ان کے فیصلے آج بھی زندہ نہیں؟، اس کیس کو توہین عدالت کا کیس نہ سمجھیں۔ آپ کے موکل نے تین سال بعد اس عدالت پر انگلی اٹھائی، عدلیہ کی آزادی کیلئے ہمیشہ کوشش کی اور کرتا رہوں گا،  ججز کے خلاف بیان بازی اور الزامات کا ایک نریٹیو بلڈ ہوگیا، ہم ججز کوئی پریس کانفرنس نہیں کرسکتے کہ اپنا موقف پیش کریں، ان ججز کو اسی طرح پریشرائز کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے سٹنگ چیف جسٹس نے گلگت بلتستان کے چیف جج کے سامنے فون پر بات کی،  دو سٹنگ ججز کی ملاقات ہوئی اور بات تین سال بعد باہر آئی، اس عدالت کے معزز جج کا نام لیا گیا، جو ان دنوں ملک میں موجود ہی نہیں تھا، کہا گیا کہ ملزم کو الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنا چاہیے، میں خود، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ان دنوں عدالت میں ہوتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل  یہ جواب نہیں دے رہے تو کیا  کریں؟، رانا شمیم نے کہاکہ جواب ہم نے تیار کرلیا ہے اور میرے وکیل خود جمع کرائیں گے۔  چیف جسٹس نے کہاکہ بار، وکلا اور کورٹ رپورٹرز سے کوئی چیز نہیں چھپی ہوتی، میں دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اس عدالت کے ججز کو کوئی اپروچ نہیں کر سکتا، اگر انہوں نے کہیں پر اوریجنل ڈاکومنٹ جمع نہیں کرایا تو وہ عدالت میں پیش کریں، اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس عدالت پر عوام کا اعتماد ختم کیا جائے،کوئی انڈی پینڈنٹ جج یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ اس پر کوئی دباؤ تھا۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ پرائیویٹ ڈاکومنٹ تھا اس نے پبلش کرنے کے لیے نہیں رکھا تھا۔ رانا شمیم نے کہا پبلش ہونے کے بعد اس سے رابطہ کیا گیا، خبر دینے والے صحافی کا کہنا ہے کہ اس نے خبر شائع ہونے سے پہلے رابطہ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ توہین عدالت کے قوانین مفاد عامہ کے انٹرسٹ کو تحفظ کرتے ہیں، اس سے عام عوام میں تاثر گیا ہے کہ اس ہائی کورٹ کے تمام ججز کمپرومائز تھے۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ جب سیاسی جماعتیں معاملات طے نہیں کر پاتیں تو عدالتوں کا رخ کرتی ہیں، رانا شمیم نے بیان حلفی سے انکار نہیں کیا، رانا شمیم نے بیان حلفی شائع ہونے کے لیے نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بتا دیں کہ کیا اس ہائیکورٹ میں کوئی پرابلم ہے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بیانیہ ہائی کورٹ کو نقصان پہنچا رہا ہے، ڈاکومنٹ اس وقت کدھر ہے؟۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ بیان حلفی برطانیہ میں ان کے پوتے کے پاس ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سابق جج نے کہا کہ انہوں نے بیان حلفی میڈیا کو دیا ہی نہیں، کیسز کے حوالے سے بیان حلفی کو ہمیشہ عدالتی ریکارڈ پر رکھا جاتا ہے، بیان حلفی کہیں نہ کہیں تو جمع ہونا تھا، وہ لاکر میں رکھنے کے لیے تو نہیں تھی، پاناما کیسز ابھی بھی زیر سماعت ہیں، مجھے میرے تمام ججز پر فخر ہے اور بھروسہ بھی، اس عدالت پر تین سال بعد انگلی اٹھائی گئی۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ 75 سالوں سے عدلیہ اپنی بحالی کی کوششوں میں ہیں، وکلاء  اور سیاسی جماعتوں نے بھی عدلیہ کی آزادی کے لیے کوششیں کی، سیاست اور سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نہیں آنا چاہیے، مگر یہاں ایسا ہوتا ہے، میرے موکل نے کہا کہ میں توہین عدالت سے انکار نہیں کررہا، عدالت نے لطیف آفریدی سے کہاکہ یہ بتائیں کہ کاغذات کہاں پر ہیں؟۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ کاغذات درخواست گزار کے پوتے کے پاس ہیں جو سٹوڈنٹ ہے اور اسے ہراساں کیا جا رہا ہے جس پر آج کل انڈر گراؤنڈ ہے۔ عدالت نے کہا کہ برطانیہ میں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کو خطرہ ہو اور آپ انڈر گراؤنڈ ہوں، آپ بتائیں کہ اس عدالت میں مسئلہ ہے، میں اس عدالت کا ذمہ دار ہوں اور مجھ پر ذمہ داری آتی ہے، کیس کو آگے بڑھانے کے لئے اصل دستاویزات جمع کرانا ضروری ہے۔ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت مہلت دے تاکہ وہ برطانیہ جا کر بیان حلفی لا سکیں۔  چیف جسٹس نے کہاکہ اوریجنل بیان حلفی پیر تک عدالت میں جمع کرائیں، اگر رانا شمیم نے یہ بیان حلفی کسی اور مقصد کے لیے بنایا ہے اور اشاعت کے لیے نہیں دیا تو اس کے نتائج ہوں گے، میری ہائیکورٹ کے کسی جج کو اپروچ نہیں کیا جا سکتا، میرے کسی جج نے کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا، الزامات کسی اور پر نہیں بلکہ اس عدالت کے ججز پر ہیں، چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میرے سمیت تمام ججز کی انکوائری شروع ہوجائے۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ جب بیان حلفی شائع ہوا تو میرے موکل نے نہیں کہا کہ ان کے کنٹینٹس نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصلی بیان حلفی اس عدالت کو جمع کرائیں تو پتہ چلے گا، اس عدالت پر اتنا بڑا الزام لگایا گیا، اور آپکا موکل اصل بیان حلفی جمع نہیں کرارہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالتی تحریری فیصلے کے بعد میں نے رانا شمیم اور برطانیہ کو بھی خط لکھا۔ لطیف آفریدی نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب ایک سائڈ پر بات کررہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہاکہ جوان لڑکے کو اگر برطانیہ میں ہراساں کیا جارہا ہے تو یہ سنگین مسئلہ ہے، بتایا جائے اس جوان کو کون ہراساں کررہے ہیں، ہم نے خط لکھا اور کہا کہ پاکستانی ہائی کمشن کے ذریعے بیان حلفی دے، رانا شمیم کا بیٹا اور پوتا اس وقت برطانیہ میں موجود ہیں۔  لطیف آفریدی نے کہاکہ بدقسمتی سے رانا شمیم کے خاندان میں تین اموات جلد ہوئیں، لندن جانے کی اجازت دیں تاکہ اصل بیان حلفی لیکر آئیں۔ اس موقع پر عدالت نے رانا شمیم کو بیرون ملک جانے سے روک دیا  اور کہاکہ رانا شمیم کو بیرون ملک جانے کی ضرورت نہیں، وہ بیرون میں نہیں جاسکتے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میں چیف جسٹس ہوں اور اگر میرے سامنے ایک چیف جسٹس بات کررہا ہے تو میں کیا کرونگا، جس پر لطیف آفریدی نے کہاکہ وہ آپ کا معاملہ ہے کہ آپ کیا کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر آپ کو اس عدالت پر شک ہو تو ٹھیک ہے مگر تمام ججز پر انگلی اٹھانا ٹھیک نہیں۔ عدالت نے رانا شمیم کو اصل بیان حلفی جمع کرانے کیلئے مہلت دیتے ہوئے کہاکہ پیر تک اصل بیان حلفی جمع نہ کرایا تو چارج فریم ہوگا اور سماعت 13 دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔ دوسری جانب  مبینہ بیان حلفی کے معاملے پر رانا شمیم نے توہین عدالت کیس میں شوکاز پر  جواب عدالت میں جمع کرا دیا۔ جس میں رانا شمیم نے کہا ہے کہ وہ ثاقب نثار کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ واقعہ ثاقب نثارکے ساتھ 15 جولائی 2018 کی شام 6 بجے کی ملاقات کا ہے، ثاقب نثار سے گفتگو گلگت میں ہوئی جو پاکستان کی حدود سے باہر ہے لیکن حقائق پر ثاقب نثارکا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے بیان حلفی پبلک نہیں کیا، اس لیے توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہوسکتی، برطانیہ میں بیان ریکارڈ کرانے کا مقصد بیان حلفی کو بیرون ملک محفوظ رکھنا تھا، بیان حلفی کسی سے شیئرکیا نہ ہی پریس میں جاری کیا، عدلیہ کو متنازعہ بنانا مقصد نہیں تھا، عدلیہ کی توہین کا ارادہ ہوتا تو پاکستان میں بیان حلفی ریکارڈ کراکے میڈیا کو جاری کرتے لہٰذا توہین عدالت کا شوکاز واپس لیا جائے۔

ای پیپر-دی نیشن