ہیلی کا پٹر حادثہ ، بھارتی افواج کے اندرونی اختلافات کا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
بپن راوت کے ہیلی کاپٹر حادثے میں بھارتی افواج کے اندرونی اختلافات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کے چیف آف ڈیفنس کا شمار متنازعہ افسران میں ہوتا تھا وہ بھارتی افواج میں بہت زیادہ مقبول نہیں تھے۔ بالخصوص فضائیہ کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ تھے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندرا مودی کے پسندیدہ بپن راوت تشدد اور تعصب پسندی میں بہت آگے نکل چکے تھے۔ بھارت میں تشدد کی لہر کو ہوا دینے اور حکومتی سطح پر تعصب کی پالیسی کو اپنانے میں بپن راوت کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ ہیلی کاپٹر حادثے کو دیکھتے ہوئے چند اہم پہلوؤں کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے اہم پہلو بھارتی افواج کے اندرونی اختلافات ہیں۔ بھارت کی کشمیر کے حوالے سے بے چینی اور دنیا کی نظریں اہم مسئلے سے ہٹانے کے لیے بھی ایسی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت میں گذشتہ ڈیڑھ برس میں کسانوں کو جس انداز میں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان حالات میں بپن راوت کے ہیلی کاپٹر حادثے کو صرف ایک حادثہ قرار دے کر چھوڑا نہیں جا سکتا۔ نریندرا مودی جیسے ظالم، متعصب اور پاکستان دشمن شخص سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش میں کچھ بھی کر سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں بھارتی میڈیا روایتی انداز میں اس واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کچھ غیر معمولی نہیں ہو گا کیونکہ بھارت ہمیشہ سے ایسے معاملات میں زبردستی پاکستان کو شامل کر کے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ سیالکوٹ میں ہونے والے افسوسناک واقعے میں بھی بیرونی ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی ایسے بے رحم اور سنگدل نہیں ہیں۔ حساس اداروں کو سیالکوٹ واقعے کی مکمل تفتیش کرنی چاہیے۔ اس حادثے میں تامل پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال بپن راوت ایک متنازع اور تشدد پسند فوجی تھے۔ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد نریندرا مودی نے انہیں چیف آف ڈیفنس بلاوجہ نہیں بنایا تھا۔ وہ نریندرا مودی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔