• news
  • image

کیا بھارتی فوج تقسیم ہو رہی ہے؟؟؟؟

جنرل بپن راوت ہیلی کاپٹر حادثہ، ایک حادثہ ہے یا پھر سازش لیکن اسے صرف ایک حادثہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ بپن راوت ایک متنازع شخصیت تھے۔
انہیں غیر معمولی انداز میں ذمہ داریاں ملتی رہیں۔ گذشتہ روز ہندوستان کے چیف آف ڈیفنس سٹاف کو لے جانے والا ایک ہیلی کاپٹر جنوبی ریاست تامل ناڈو میں گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ اس حادثے پر مختلف انداز میں تبصرے ہو رہے ہیں۔ ہندوستانی فضائیہ کے مطابق ایک IAF Mi-17V5 ہیلی کاپٹر، جس میں جنرل بپن راوت سوار تھے  تامل ناڈو کے قریب حادثے کا شکار ہو گیا۔ بھارتی فضائیہ کے مطابق حادثے کی تحقیقات جاری ہیں۔
دسمبر دو ہزار پندرہ میں  مودی حکومت نے جنرل بپن راوت کو دو سینئر افسران کو ہٹا کر آرمی چیف مقرر کیا تھا۔
سی ڈی ایس جنرل بپن راوت ہندوستانی فوج میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے والے فوجی اہلکار تھے۔  31 دسمبر دو ہزار انیس کو آرمی چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہونے سے ایک دن پہلے انہیں سی ڈی ایس کے نئے بنائے گئے عہدے پر تعینات کر دیا گیا تھا۔ اس تعیناتی میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے چیف آف ڈیفنس سٹاف کے نئے دفتر اور ان کی ذمہ داریوں کو حتمی شکل دینے کے لیے سیکرٹری دفاع اجے کمار کے ساتھ مل کر تمام معاملات کو حتمی شکل دی۔ ایجنسیوں، تنظیموں اور کمانڈز کو چیف آف ڈیفنس سٹاف کی کمان میں رکھا گیا تھا۔ وہ نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کے ملٹری ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کر رہا تھا۔ جنرل بپن راوت دفاعی حصول کونسل کا رکن بھی تھا جس کی صدارت وزیر دفاع کرتی تھی اور دفاعی منصوبہ بندی کمیٹی جس کی صدارت NSA کرتی تھی۔
بپن راوت مودی حکومت کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ نریندرا مودی کا پسندیدہ اور افواج کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے چیف آف ڈیفنس سٹاف کی تقرری کا شروع سے ہی بھارتی افواج میں ناپسند کیا گیا۔ اس نئی تقرری کا فوج کی سطح پر کسی نے بھی نے خیر مقدم نہیں کیا۔ بپن راوت کی تقرری کو اسے بی جے پی/آر ایس ایس حکومت کا سیاسی اقدام بھی قرار دیا گیا۔ چیف آف ڈیفنس جنرل بپن راوت کی تقرری شروع سے ہی افواہوں میں گھری ہوئی تھی۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی اور ان کے متنازع دوست جنرل بپن راوت بھارتی افواج کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے تھے اور یہ بات فوج کی سطح پر غیر مقبول تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بھارتی فوج میں اس حوالے سے بے چینی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ بطورِ خاص جنرل بپن راوت کو ہندوستانی فضائیہ کے حلقوں میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ قومی سلامتی میں بھارتی فضائیہ کے کردار کو کمزور کرنے کے حوالے سے  بیان پر کافی تنقید کی گئی تھی اور ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ کو عوامی سطح پر چیف آف ڈیفنس سٹاف کے بیان سے اختلاف کرنا پڑا۔ اس طرح ان کے درمیان شدید تصادم شروع ہوا- نریندرا مودی ہندوتوا کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے فوج کو ہر لحاظ سے اپنی سوچ کے مطابق استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اہم عہدوں پر اپنے ہم خیالوں کو آگے لا رہے ہیں جس وجہ سے بھارتی افواج میں اختلافات بڑھ رہے ہیں۔ جنرل بپن راوت اس کی تازہ اور بڑی مثال ہیں۔
 سی ڈی ایس جنرل راوت نے آئی اے ایف کو زمینی افواج کے لیے معاون بازو کے طور پر لیبل کیا - اسے آرٹلری، آرمی میں انجینئرز کے کردار سے تشبیہ دیتے ہوئے۔ لیکن اے سی ایم بھدوریا کہتے ہیں کہ جنگی علاقوں میں فضائی طاقت کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) جنرل بپن راوت اور آئی اے ایف کے سربراہ آر کے ایس بھدوریا ایک دوسرے سے ان انفرادی کرداروں کے بارے میں متفق نہیں تھے جو دفاعی افواج ، آئی اے ایف، فوج، بحریہ - ملک کے سیکورٹی فریم ورک میں ادا کرتے ہیں۔  جبکہ راوت نے آئی اے ایف کو "سپورٹ بازو" کے طور پر لیبل کیا، بھدوریا نے کہا کہ "مربوط جنگ میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔ روات نے تھنک ٹینک گلوبل کاؤنٹر ٹیررازم کونسل کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فضائیہ زمینی افواج کو مدد فراہم کرتی ہے"۔
یہ نہ بھولیں کہ ایئر فورس مسلح افواج کا ایک معاون بازو بنی ہوئی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح آرٹلری یا انجینئرز فوج کے اندر جنگجوؤں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے پاس فضائی دفاع کا چارٹر ہوتا ہے اور آپریشن کے وقت زمینی افواج کی مدد کرتے ہیں۔"  راوت نے کہا، فورس کو اپنے بنیادی چارٹر کو سمجھنا ہوگا۔
جنرل بپن راوت کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جب انہوں نے عوامی طور پر نئے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کی قیادت کرنے والے لوگوں پر تنقید کی، کہا کہ قیادت ملک بھر میں آتش زنی اور تشدد کرنے کے لیے عوام کی رہنمائی کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔
 کارکنوں اور فوجی تجزیہ کاروں کی طرف سے بھی شدید رد عمل سامنے آیا جنہوں نے ان پر سیاسی تبصرے کرنے کا الزام لگایا۔
آرمی چیف کے طور پر اپنے تین سالہ دور میں، انہیں سیاسی طور پر غیر جانبدار نہ رہنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دفاعی ماہرین اور سینئر بھارتی افسر پراسرار حادثے کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ اس بات کے تمام امکانات ہیں کہ چھپے ہوئے غیر مطمئن ہاتھ نے حادثے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  پہلی ہندوستانی سی ڈی ایس کی ہیلی کا حادثہ بی جے پی حکومت کے سی ڈی ایس کی تقرری کے اقدام کے خلاف ہندوستانی سینئر فوجی قیادت میں شدید اختلافات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
جنرل بپن راوت فوجی وردی پہنے ایک نریندرا مودی کے ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مکمل طور پر ایک سیاسی حکومت کو تشدد پر اکسایا ہے۔ بپن راوت کے اقدامات کی وجہ سے بھارتی افواج میں تقسیم اور اختلافات واضح ہوئے ہیں۔ ایک طرف بھارتی افواج کو کشمیر میں مزاحمت کا سامنا ہے تو دوسری طرف دنیا بھر میں بھارتی اقدامات پر تنقید ہو رہی ہے۔ خالصتان تحریک کے لیے ریفرنڈم ہو رہا ہے۔ ان حالات میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھارتی افواج متحد ہیں بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقسیم ہر سطح پر نظر آ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس واقعے میں پاکستان کو کیسے شامل کرتا ہے۔ ویسے تو کبوتروں کو بھی جاسوس قرار دیتے ہیں اب اپنے ایک اہم فوجی جرنیل کی ہلاکت پر بھارتی افواج کے ردعمل کا انتظار رہے گا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن