چو تھا سال : حکومت اپوز یشن سے اچھے تعلقات قا ئم کرنے میں ناکام
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
ملک میں سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت کا چوتھا سال شروع ہو چکا ہے ابھی تک پاکستان تحریک انصاف حزب اختلاف کی جماعتوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ کراچی میں احسن اقبال اور نون لیگ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ناروا سلوک حکومتی پالیسیوں کو واضح کرتا ہے۔ سیاست دانوں پر ڈنڈے برسنا جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی حریفوں کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔ ڈندے برسانے کے بجائے پارلیمنٹ میں بحث کی جائے، سوال جواب وہاں ہوں جہاں عوام نے ووٹ دے کر بھیجا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور حکومت کو سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ اگر بھارت سے مذاکرات کی خواہش ہو سکتی ہے تو پھر اپنے لوگوں کے لیے اتنی سختی کیوں ہے، کسی بھی سیاسی جماعت میں سب ہی ناپسندیدہ نہیں ہوتے، کسی بھی سیاسی جماعت میں سب ہی برے لوگ نہیں ہوتے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے جارحانہ سیاست کے نام پر ملکی سیاست میں عدم برداشت کو فروغ دیا ہے اور اس عدم برداشت کے رویے سے ہمیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ بجلی ہر روز مہنگی ہو رہی ہے، گیس، پیٹرولیم مصنوعات ادویات کی قیمتیں کسی کے قابو میں نہیں ہیں اور حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر کیا کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو ملک میں سیاسی کلچر کو بہتر بنانے کا ایک اچھا موقع ملا تھا لیکن نون لیگ والوں نے خود سلنڈر بھر بھر کر اپوزیشن آکسیجن فراہم کی ہے اگر حکومت ڈیلیور کرتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ حکومت اپنی ناکامی زبانی جمع خرچ سے چھپا نہیں سکتی۔ اب لوگ سوال پوچھیں گے اور اس کا جواب دینا پڑے گا۔ ملک میں جرائم بڑھ رہے ہیں۔ بدامنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں ہر وقت بیانات جاری کرنے کے بجائے معاملات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جب حکومت کی ساری توجہ برا بھلا کہنے پر ہو گی تو کام کون کرے گا۔