• news

حضرت قطب الاقطابؒ حضرت شاہ رکن الدین والعالم ملتانی سہروردی ؒ آپ کا سالانہ تین روزہ عرس مبارک آج ملتان میں شروع ہو رہا ہے 


ڈاکٹر محمد صدیق قادری
حضرت شاہ رکن الدین و العالمؒ کا 703 عرس مبارک آج شروع ہو رہا ہے جس میں ملک بھر سے زائرین کی شرکت کا سلسلہ جاری ہے ۔ تین روزہ عرس کی تقریبات  7 جمادی الاول  تک جاری رہیں گی۔حضرت قطب الاقطابؒ نے اتحاد و یکجہتی‘ تحمل و برداشت‘ اعتدال و میانہ روی اور رواداری کا جو درس دیا ہے آپ کی تعلیمات کایہ چشمہ صدیوں سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے دلوں میں رواں دواں ہے اورآج بھی محمدؐ کی یہ تجلی جگہ جگہ ضوفشاں ہے۔ اولیائے اللہ اور صلحائے اسلام کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے عہد کیلئے ایک جامع دستور العمل دیا ہے تاکہ لوگ اسے جزو زندگی بناکر دنیاوی اور اْخروی فلاح  پا سکیں۔شیخ الاسلام‘ قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن الدین و العالم نوری حضوری سہروردیؒ کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کی نشر و اشاعت اور مخلوق خدا کی خدمت کیلئے وقف کئے رکھی۔برصغیر میں حضرت شاہ رکن الدین و العالم سہروردیؒ ایسے اکابر امت نے ایسے روحانی اور علمی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو رہتی دنیا تک  اسلام کی حقانیت کو انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لئے عام کرتے رہیں گے ۔
 حضرت شاہ رکن الدین و العالمؒ جنوبی ایشیاء میں سلسلہ سہروردیہ کے بانی‘ شیخ اسلام حضرت غوث بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی کے پوتے اور حضرت شیخ صدر الدین عارفؒ کے صاحبزادے تھے۔ آپ کی پیدائش 9 رمضان المبارک 649 ھ کو ہوئی آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی پاک دامنؒ فرغانہ کے بادشاہ سلطان جمال الدین کی صاحبزادی اور عفت و عصمت اور عبادت و ریاضت کے اعتبار سے اسم بامسمیٰ تھیں ۔یہ آپ ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ جب آپ نے بولنا سیکھا تو آپ کی زبان سے ادا ہونے والا جو پہلا حرف ادا ہوا وہ ذات باری تعالیٰ ’’اللہ‘‘ کا پاک نام تھا۔ حضرت شاہ رکن الدین و العالمؒ کی تعلیم و تربیت اپنے جدامجد حضرت غوث بہاء الدین زکریاؒ کے زیر سایہ ہوئی اور یہ اسی تربیت کا فیض تھا کہ آپ کی شخصیت میں اوائل عمر ہی سے روحانی آثار ظاہر ہونے لگے۔ آپ نے قرآن مجید اور دوسرے مروجہ علوم دینیہ اپنے جد امجد کی قائم کردہ درس گاہ جامعہ بہائیہ میں حاصل کئے۔سلسلۂ سہروردیہ کے مشائخ نے دیگر سلاسل طریقت کے مشائخ کے برعکس‘ سلاطین وقت سے اپنے روابط اس لئے برقرار رکھے کہ ان کی بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کی نشاندہی کرکے امور سلطنت میں ان کی رہنمائی کی جائے تاکہ وہ شریعت مطہرہ پرکاربند ہو کر اپنے آپ کو خدمت خلق کے لئے وقف کر دیں۔ لیکن مشائخ سہروردیہ نے ان تعلقات کو دنیاوی فوائد کے حصول کی بجائے‘ تبلیغی اور اصلاحی مقاصد اور خدمت خلق کا ذریعہ بنایا۔ سلاطین وقت سے تعلقات کے باوجود آپ ان کی شان و شوکت سے ہرگز متاثر نہ ہوئے بلکہ ان کے سامنے بھی کلمۂ حق بلند فرماتے رہے۔ آپ نے ایک مظلوم شخص کی فریاد پر سلطان علاؤ الدین خلجی کو پیغام بھیجا کہ ’’مظلوم کے ساتھ انصاف کرو‘ ورنہ ہم غروب آفتاب سے پیشتر تمہاری جگہ کسی عادل حکمران کو دہلی کے تخت پر بٹھا دیں گے‘‘۔
 آپ کی حق گوئی اور صداقت کا یہ واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ سلطان علاؤ الدین خلجی‘ سلطان الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ سے بغض و عناد رکھتا تھا چنانچہ اس نے حضرت سلطان الاولیاء کا اثر و رسوخ کم کرنے کی غرض سے حضرت قطب الاقطاب کودہلی بلایا۔ آپ دہلی پہنچے توسلطان الاولیاء نے شہر سے باہر آپ کا استقبال فرمایا بادشاہ نے آپ سے پوچھا کہ ’’دہلی میں سب سے پہلے آپ کا استقبال کس نے کیا‘‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒسے بادشاہ کی مخالفت کے باوجود آپ نے فرمایا ’’دہلی میں سب سے پہلے میرا استقبال اس نے کیا جو اس شہر میں سب سے بہتر ہے اور وہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ہیں‘‘ ۔جب حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا وصال ہوا تو حضرت شاہ رکن عالم ان دنوں دہلی میں تھے اور آپ نے حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ ہمیشہ اس سعادت پر فخر کرتے تھے۔ حضرت خواجہ کے مرید خاص حضرت امیر خسرو کی نماز جنازہ بھی حضرت شاہ رکن عالم نے پڑھائی۔
 حضرت شاہ رکن الدین و العالم کے مشہور خلفاء میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاریؒ‘ حضرت مخدوم حمید الدین حاکمؒ‘ حضرت صدر الدین چراغ ہندؒ‘ شیخ وجیہہ الدین عثمان سناسیؒ‘ مولانا ظہیر الدین محمد‘ حضرت علی بن احمد غوریؒ اور شیخ قوام الدین ؒخصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔حضرت شاہ رکن الدین و العالمؒ نے اپنے جدامجد کی قائم کردہ درس گاہ اور تبلیغی سلسلے کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید وسعت دی۔ دینی تعلیم کے ساتھ خطاطی‘ ظروف سازی‘ تعمیرات اورتاریخ نویسی کے شعبے بھی قائم تھے اس دور میں عربی اور فارسی کے علاوہ علاقائی زبانوں نے خوب ترقی کی۔حضرت قطب الاقطاب نے علم و عمل اور سیرت و کردار کے پیکر مجسم بن کر لوگوں کو نا صرف دائرہ اسلام میں داخل کیا بلکہ برصغیر میں اسلام کی حقانیت کا بول بالا کیا۔
 حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ نے اپنی وفات سے تین ماہ پیشتر 7 صفر735 ھ کو حضرت غوث بہاء الدین زکریا کے سالانہ عرس کی اختتامی تقریب میں مریدین سے اپنے خطاب میں فرمایا۔ ’’دوستو! یہ دنیا ایک سرائے ہے جو لوگ اس میں مسافروں کی طرح رہتے ہیں اور اس کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتے جب پیغام اجل آتا ہے تو شاداں و فرحاں اپنے اصلی مقام کی طرف لوٹتے ہیں۔ اور انہیں اس دنیا کے چھوڑنے کا ذرہ بھر ملال نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو لوگ اس دارفانی کو اپنا اصلی وطن بنا لیتے ہیں‘ انہیں اس دنیا کو چھوڑتے ہوئے ضرور تکلیف ہوتی ہے۔ میں تم سب کو اللہ کی امان میں دیتا ہوں‘ اب تم بھی مجھے اللہ کے سپرد کر دو‘‘ اس کے بعد آپ اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور لوگوں سے ملنا ترک کر دیا۔ 7 جمادی الاول 735 ھ کو اپنے مرید خاص مولانا ظہیر الدین محمد کو تجہیز و تکفین کے سلسلے میں ہدایات دیں اور اسی روز نماز مغرب کے بعد نوافل اوابین پڑھتے ہوئے سجدے کی حالت میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ 
آپ کو پہلے حضرت غوث بہاء الدین کے مقبرے میں دفن کیا گیا اور بعد میں موجودہ مزار میں منتقل کیا گیا جو سلطان محمد تغلق نے آپ کیلئے وقف کیا تھا۔
رکن عالمؒ آپ کا چشمہ رواں ہے آج بھی
یہ محمدؐکی تجلی ضوفشاں ہے آج بھی


؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛


قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن عالمؒسہروردی 
حفیظ اللہ شاہ مہروی
حضرت شاہ رکن الدین شاہ رکن عالم سہروردیؒ نو رمضان المبارک کو عالم کون و مکاں میں جلوہ فروز ہوئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ والدہ ماجدہ باوضو ہو کر دودھ پلانا شروع کرتیں اور ساتھ تلاوت کلام الٰہی بھی کرتیں۔ آپ دودھ پیتے اور قرآن کی طرف توجہ بھی فرماتے۔ حضرت رابعہ عصر تہجد کیلئے اٹھتیں تو آپ بھی بیدار ہو جاتے۔ اشراق کے وقت بیدار رہتے۔ پاکدامن کو اللہ نے صرف ایک ہی بیٹا شاہ رکن عالم عطا فرمایا مگر ایسا بیٹا جس پر ہزاروں مائیں رشک کرتی رہیں اور لاکھوں مائیں آرزوئیں لیکر گئیں اور حضرت شاہ رکن عالم کی بھی اولاد نہ تھی مگرآپ کی روحانی اولاد کا سلسلہ اسقدربڑھا پھلا اور پھولا کہ پوری دنیا میں سلسلہ چھا گیا۔آپ نے ظاہری تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اور روحانی تربیت اپنے جد بزرگوار سے حاصل کی۔ آپ پیدائشی ولی تھے اور بچپن میں ہی کرامات اور نوادرات کا ظہور ہو چکا تھا جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ہلال ایک روز افق پر بدر بنکر درخشاں ہو گا۔ حضرت غوث اللعالمین کا مدرسہ اور لنگر خانہ اس عہد میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور مولانا کمبوہ جمالی جیسے مشاہیر فاضل اولیائ￿ آپ کی خانقاہ اور آپ ہی کے مدرسہ کے تربیت پذیر اور تعلیم یافتہ تھے۔ آپکا دائرہ ارادت بہت وسیع تھا۔ دور دور سے لوگ آتے اور مرید ہوتے۔ پنجاب سے لے کر سندھ تک آپ کے فیض کا دریا بہہ رہا تھا۔ مدرسہ میں غیر ممالک تک کے طلباء حصول تعلیم  کیلئے آتے اورمفت تعلیم پاتے ۔ یہی نہیں  بلکہ انہیں کتابیں‘ قلم دوات تک آپ مہیا کرتے تھے۔ کھانے کی طرف سے بھی بے فکری تھی کہ لنگر موجود تھا۔ آپ کی خانقاہ میں روحانی تربیت کا بہترین انتظام تھا جس سے بڑے بڑے اولیاء فیضاب ہوتے۔ مخلوق خدا کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ حضرت سلطان المشائخ کے اثرو رسوخ سے قال اللہ اور قال الرسول کا شور بلند تھا دوسری طرف ملتان میں حضرت شاہ رکن عالمؒ والدین کی ترغیب سے تمام فرزندان توحید کو خالص اسلامی رنگ میں رنگ دیا تھا۔ ہندو بکثرت مسلمان ہو رہے تھے۔ حضرت شاہ رکن الدین و العالم کو دربار شاہی میں بڑا اثرو رسوخ حاصل تھا۔ فرمانروا اور امراء سب آپ کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ سلطان علاؤالدین خلجی ہندوستان کافرمانروا گزرا ہے جس کے نام سے بڑے بڑے فرمانروا ڈرتے تھے اسکی یہ حالت تھی کہ حضرت شاہ رکن عالمؒ کے دورہ ہندوستان کی خبر سنتا تو دور تک استقبال کیلئے آتا اور نذرانہ پیش کرتا۔ آپ سات سال کی عمر میں نماز اور روزہ کے پابند ہو چکے تھے۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے تھے۔ نماز تہجد‘ اشراق و چاشت اور نوافل کے پابند تھے۔ رمضان کے علاوہ محرم میں بھی روزہ رکھتے ۔ ریاضت عبادت اور مجاہدہ میں مشغول رہتے تھے۔ کشف قلوب میں ممتاز حیثیت کے مالک تھے۔ کمالات صوری اور معنتوی آپکو پچیس سال کی عمر میں حاصل تھے۔ غرض عبادت‘ ریاضت‘ زہد و تقویٰ‘ جود و سخا‘ نصیحت و شفقت الفت مروت بردباری کسر نفسی اور اخلاق میں بے مثال تھے۔ اس لئے لوگوں میں قبلہ حاجات مشہور تھے جو نذرانہ آتا آپ اسکو خرچ کر دیتے جب پالکی میں نکلتے تو آپ کے دونوں ہاتھ اکثر باہر نکلے ہوئے ہوتے کہ شاید کسی بخشے ہوئے کا ہاتھ مجھے لگ جائے تو میں بھی بخشا جاؤں۔  آپ علماء و فضلاء  اور درویشوں کا خیال رکھتے تھے اور بہت عزت کرتے تھے اور ان کی خاطر مدارت میں کوئی دقیقہ اٹھا کر نہیں رکھتے تھے۔آپ فیض ربانی کا ایک دریا اور قطب وقت تھے۔آج بھی کئی سو سال گزر جانے کے باوجود آپکا مزار پرانوار مرجع خلائق ہے۔
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
٭٭٭ 
جنوبی ایشیاء کے عظیم روحانی پیشوا
حافظ فاروق خان سعیدی
پاکستان میں تصوف کی تعلیمات دوسری صدی ہجری میں پہنچ چکی تھیں۔ سرزمین ملتان کو برصغیر میں اس لحاظ سے انفرادی و امتیازی مقام حاصل ہے کہ اسے بے شمار اولیاء کرام کا مسکن اور آرام گاہ بننے کا لازوال اعزاز حاصل ہے۔ اسے بجا طور پر مدینۃ الاولیاء کہا جاتا ہے۔ ہزاروں مقبولان خدا اور وارثان علوم مصطفیؐ یہاں جلوہ افروز ہیں۔ مدینۃ الاولیاء ملتان کی عظیم المرتبت اور جلیل القدر شخصیات میں شیخ الاسلام‘ غوث العالمین حضرت بہاؤ الحق و الدین زکریا سہروردی ملتانیؒ کا نام نامی نمایاں ہے اور آپ ہی کی نسبت سے ملتان کو غوث کی نگری کہا جاتا ہے۔ حضرت غوث بہاؤ الدین زکریاؒ سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین عمر سہروردی ؒ کے بعد سب سے بڑی شخصیت اور برصغیر میں سلسلہ سہروردیہ کے بانی ہیں۔ قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن عالم ؒ غوث العالمین کے پوتے اور مخدوم شیخ صدرالدین عارف ؒ کے لخت جگر ہیں۔ آپ نے اپنے دادا اور والد سے روحانی فیوض و برکات حاصل کئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بی بی راستی پاک دامنؒاپنے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی وجہ سے رابعہ عصر کہلاتی تھیں۔ انہوں نے بھی حضرت غوث کے زیر سایہ باطنی و روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ آپ نے ظاہری تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اور روحانی تربیت میں جد امجد سے فیض یاب ہوئے ۔شاہ رکن الدین دونوں بزرگوں کا اتنا احترام کرتے تھے کہ کبھی ان سے آنکھیں چار نہ کرتے نہ بلند آوازسے بولتے۔ شاہ رکن عالم کی ذات میں علم‘ تواضح‘ شفقت‘ حلم‘ موافقت‘ بشاشت و مروت‘ عفوحیائ‘ حسن ظن جیسی جملہ صفات بدرجہ اْتم پائی جاتی تھیں۔
سلسلہ سہروردیہ کے بزرگان کے سلاطین وقت سے تعلقات و روابط رہے لیکن ان نفوس قدسیہ نے کبھی بھی دربار شاہی سے اپنے ذاتی اور نجی فوائد و مقاصد ہرگز حاصل نہ کئے بلکہ بندگان خدا کی دادرسی اور مظلوموں اور مجبوروں کی حاجت روائی فرماتے رہے۔ سلطان علاؤ الدین خلجی کے عہد حکومت میں قطب الاقطاب جب ملتان سے دہلی تشریف لائے تو سلطان نے شاہی تزک و احتشام کے ساتھ دہلی سے باہر آپ کا استقبال کیا اور بصد اعزاز و اکرام آپ کو دہلی لایا اور دو لاکھ ٹکے نذر  کئے اور پھر روانگی کے وقت پانچ لاکھ مزید نذر کئے۔ حضرت شاہ رکن عالمؒ نے دہلی چھوڑنے سے پہلے یہ ساری رقم فقرا اور مساکین میں تقسیم کر دی۔
حضرت شیخ رکن الدین کے تعلق سلاطین وقت سے بھی تھے مگر یہ تعلقات محض خدمات خلق اللہ کی خاطر تھے۔ علاؤ الدین خلجی کے بعد جب اس کا لڑکا قطب الدین خلجی تخت نشین ہوا تو اس کو محبوب الٰہی سے ذاتی مخاصمت پیدا ہو گئی اس مخالفت اور عناد کی وجہ سے سلطان نے دوسرے مشائخ سے مراسم پیدا کئے اس سلسلہ میں اس نے حضرت شیخ رکن الدین ؒ سے بھی اپنی گرویدگی اور شگفتگی کا اظہار کیا اور ان کو ملتان سے دہلی آنے کی دعوت دی جب وہ دہلی تشریف لائے اور سلطان سے ملنے گئے تو اس نے پوچھا کہ دہلی میں سب سے پہلے کس شخص نے آپ کا استقبال تھا حضرت شاہ رکن عالمؒ ، حضرت محبوب الٰہی سے سلطان کا عناد  جانتے ہوئے بھی فرمانے لگے کہ اس نے جو اس شہر کا سب سے اچھا آدمی ہے۔یعنی حضرت نظام الدین اولیائؒ نے۔ حضرت شیخ رکن الدین کا معمول تھاکہ جب وہ سلطان قطب الدین کے پاس تشریف لے جاتے تو راستہ میں اپنی سواری تخت رواں کو ٹھہراتے تاکہ اہل ضرورت اپنی درخواستیں سلطان کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے ان کی سواری میں ڈال دیں۔ بعض ضرورت مندوںکی معروضات زبانی بھی سنتے تھے۔ شاہی محل کے پاس پہنچ کردو دروازوں تک تخت رواں پر سوار رہتے۔ تیسرے دروازے کے قریب جہاں سلطان ان کی تعظیم و استقبال کیلئے کھڑا نظر آتا وہ اتر جاتے۔ سلطان بڑے ادب و تکریم سے دربار میں لے جا کر بٹھاتا اور خودمؤدب دوزانو ہو کر ان کے سامنے بیٹھتا اس کے بعد شیخ رکن الدین شہر کے لوگوں کی درخواستیں سلطان کے سامنے پیش کرتے وہ ہر ایک درخواست کو بغور پڑھتا اور اس کی پشت پر اسی وقت حکم صادر کر دیتا۔حضرت شیخ رکن الدینؒ واپسی کے وقت تمام درخواستوں کو ساتھ لے آتے۔
 آپ کی طبیعت غذائیت کی طرف بہت ہی کم مائل تھی ایک پیالہ دودھ میں کچھ میوے ڈال دیئے جاتے اسی سے چند لقمے تناول فرما لیتے گھر والوں نے ایک طبیب سے قلت غذا کی شکایت کی طبیب نے غذا منگوا کردیکھی اور اس میں سے چند لقمے خودکھائے۔ کھانے کے بعد اس نے گرانی محسوس کی اور کہا کہ اب سات دن تک کھانے کی حاجت نہ ہو گی کیونکہ بزرگوں کے کھانے میں کمیت سے زیادہ کیفیت ہوتی ہے۔
 وضو فرماتے تو اس کے بعد کی دعا پڑھتے ایک روز وضو سے فارغ ہوئے تو دعا نہیں پڑھی بلکہ صرف الحمداللہ کہا۔ خادم خاص نے ان کے نانا سے جاکر عرض کیا کہ آج حضرت نے صرف الحمداللہ کہا اور کوئی دعا نہیں پڑھی۔ وہ حضرت شیخ رکن الدین کے پاس آئے اور واقعہ دریافت کیا۔ حضرت شیخ رکن الدین نے فرمایا آج وضو میں دنیا و آخرت کا خیال دل میں نہیں گزرا تو میں سمجھا کہ آج میرا وصال ہے اسی لئے صرف الحمداللہ کہا۔ قطب الاقطاب کے وصال کو سات صدیاں گزر گئیں لیکن آپ کے انوار و تجلیات اور فیوض و برکات جاری و ساری ہیں اورتاقیامت اسی طرح جاری و ساری ہیں اور تا قیامت اسی طرح جاری و ساری رہیں گے۔ اللہ کے مقبول و برگزیدہ بندوں کے فیوض و برکات بعد وصال بھی جاری رہتے ہیں یہ آستانے روحانی سکون و اطمینان کی دولت بانٹتے ہیں۔ مادیت کے اس دورمیں محبور‘ دکھی اور مظلوم انسان سکون کی تلاش میں آنیوالوں کی بارگاہوں میں حاضری دیتے اور بامراد ہوتے ہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛


سلطان المناظرین مولانا حافظ عبدالقادرروپڑی 
 حافظ عبدالغفار روپڑی
 آپ نے1920ء  میںمیاںرحیم بخش کے گھرمیںجنم لیاآپ کاگھرانہ دینی،علمی،ادبی اورروحانیت کے اعتبارسے بلندمقام رکھتا تھا۔ آپ کوقدرت الٰہی نے اعلیٰ ذہانت وفطانت سے نوازرکھاتھاآپ نے ابتدائی عصری تعلیم کے بعد  تقریباً سولہ برس کی عمر میںاپنے چچامحدث زماں حافظ محمد عبداللہ روپڑیؒ کی نگرانی میں علوم اسلامیہ کی تکمیل کی  ۔ حافظ صاحب جس دورمیںحصول تعلیم میںمصروف ومشغول تھے وہ دور مناظروںکادورکہلاتاہے۔کیونکہ اس وقت دین کی اشاعت وتبلیغ کاسب سے مؤثرذریعہ ہندو،آریہ سماج سے مناظرہ کرنا سمجھا جاتاتھا آپ کے مناظروںسے متاثر ہوکر ہزاروں ہندو،عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ ان مناظروں کا مجموعہ ’’فتوحاتِ اہلحدیث المعروف میزانِ مناظرہ ‘‘کے نام سے کتابی شکل میںموجودہیں۔
برطانوی استعمار نے دستور 1935 کے تحت بر صغیر میں1937 میں جب  انتخابات کروائے،اس میں کانگریس کو سارے ہندوستان میں غلبہ حاصل ہوا۔ اس دوران جواںہمت حافظ عبدالقادرروپڑی نے مسلم لیگ کی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا جس پر آپ کو مسلم لیگ روپڑ کا صدرمنتخب کر لیا گیا۔موصوف تحریک آزادی کی سرگرمیوں کی بناء پرقیدوبند کی صعوبتوں سے بھی دوچارہوئے ،مقدمہ میں حافظ روپڑی کو سات سال قید ہوئی  مگربعدمیں سیاسی قیدیوںکی رہائی عمل میںآئی۔
تقسیم ہند کے موقع پرحافظ روپڑی مرحوم اور ان کے خاندان کوانتہائی کٹھن حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے خاندان کے سترہ افراد دشمنوں کے ہاتھوںشہیدہوگئے اوران کی خاندانی بہت بڑی اسلامی لائبریری کواسلام دشمنوںنے آگ لگاکر خاکستر کردیا۔آپ کے گھرانے کی علمی اہمیت کی وجہ سے سعودی عرب کے بانی شاہ  عبدالعزیز ؒسے ان کے گہرے تعلقات تھے حافظ عبداللہ محدث روپڑی  یا  آپ جب کبھی سعودی عرب جاتے توآپ کوسرکاری مہمان کے طورپر ٹھہرایاجاتا۔
حصول پاکستان کاجونصب العین اورحقیقی مقصدتھااس کوعملاً معاشرے کے تمام اداروں میںنافذ ہوتادیکھنے کے لیے آپ زندگی بھر علمی اخلاقی اورسیاسی جدوجہد میںمصروف رہے اس سلسلہ میں آپ نے ہر تحریک میں کلیدی کرداراداکیابالخصوص1953ء اور1974میں چلنے والی تحریک ختم نبوت میںمولانا مفتی محمود،مولانا مودودی،مولاناشاہ احمد نورانی، مولانا عبدالستارنیازی،مولانایوسف بنوری،مولانامحموداحمدرضوی اورنوابزادہ نصراللہ خاںوغیرہ کے ہمراہ حضرت حافظ روپڑی نے جانداراورشاندار کردارادا کیا۔
بھٹو دورمیںحکومت کیخلاف نظام مصطفیٰ کے نفاذ کیلئے پی این اے کی تحریک میں بھی آپ  نے پوری سرگرمی سے حصہ لیاآپ کو اتحاد کے نائب صدر کے طور پرگرفتار بھی کیا گیا اور آپ راولپنڈی لاہور،میانوالی جیل میں قید رہے۔  صدرپاکستان جنرل ضیاء الحق کے دورمیںآپ کو مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا گیا اور آپ وفاقی شرعی عدالت کے مشیر ر ہے۔ملکی امن وسلامتی کے حوالے سے بھی آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔ مولاناشاہ احمدنورانی کی صدارت میں ملی یکجہتی کونسل میںآپ  قاضی حسین احمد مرحوم اور مولاناسمیع الحق مرحوم کے ساتھ اس کے بانی ارکان میں سے تھے۔آپ کو1964ء میں حافظ عبداللہ محدث روپڑیؒ کی وفات کے بعد جامعہ اہلحدیث کا نگران اور جماعت اہلحدیث پاکستان کا امیر مقرر کیا گیا اور تاحیات آپ نے یہ ذمہ داری  بخوبی  نبھائی ۔چھ سال تک آپ بیماررہنے کے بعد 6دسمبر1999ء  کی شام  عالم اسلام کی عظیم شخصیت حافظ عبدالقادر روپڑی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جداہوگئے۔آج ہمارے درمیان عبدالوہاب روپڑی جو اْن کے مشن کوجاری رکھے ہوئے ہیں اللہ پاک انہیں اِس مشن کوآگے بڑھانے کی توفیق وہمت بخشے۔ آمین

ای پیپر-دی نیشن