اتحادیوں کے گلے شکوے، تحریک انصاف کے مسا ئل بڑھ گئے، نئی صف بندیوں کا امکان
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
پاکستان تحریک انصاف کے مسائل بڑھ رہے ہیں، اتحادیوں کے گلے شکوے ختم نہیں ہو رہے اور پی ٹی آئی کی قیادت مسائل حل کرنے کے بجائے تنازعات کو ہوا دے رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک اتحادی ساتھ دے سکتے ہیں۔ حکومت اپنے چوتھے سال میں ہے اور اب الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ نئے سال کے آغاز سے ہی نئی سیاسی صف بندیوں پر کام شروع ہونے کا امکان ہے۔ ممکن ہے اس سے پہلے بھی لوگ ملاقاتیں شروع کر دیں لیکن کچھ کام یقیناً ان دنوں بھی ہو رہا ہے اور یہ کوئی عیر معمولی چیز نہیں ہے۔ کیونکہ جب حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو، مسائل حل کرنے میں ناکام ہو تو سیاسی لوگ اپنے بہتر مستقبل کے لیے نئے ٹھکانے کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اتحادیوں نے سنبھالا ہوا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کو ان کا جائز حق اور مقام دینے میں ناکام نظر آتی ہے۔ گورنر ہاؤس سندھ میں وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں بھی سٹیک ہولڈرز کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر وزیراعظم عمران خان کے سامنے اگر کوئی احتیاط نہیں کرتا تو عام دنوں میں کیا حالات ہوتے ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ارباب غلام رحیم نے یہ کہتے ہوئے گورنر سندھ کے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دیے کہ ہمارے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور گورنر سندھ خاموش رہتے ہیں۔ اس شکایت پر وزیر اعظم عمران خان نے گورنر سندھ سے سوال کیا تو انہوں نے اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کو جواب دینے کے کہا بس اس کے بعد ارباب غلام رحیم نے سوچا ہو گا کہ خاموش رہنا شکایت لگانے سے بہتر تھا۔ یہی صورتحال ہر جگہ اور ہر سطح پر ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اتحادیوں کی شکایات دور کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی، جو سیاسی جماعت اپنے اتحادیوں سے لڑتی رہے اور اپوزیشن جماعتوں سے بہتر ماحول میں بات چیت کیسے کر سکتی ہے۔ یہی اس جماعت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دو ہزار اٹھارہ سے آج تک ترجیحات کا تعین ہی نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ناصرف پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے بلکہ دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کے نام پر ووٹ دینے والے بھی مایوس نظر آتے ہیں۔