عوام کی مہنگائی سے آہ و بقا اور بے چینی
2018ء کے عام انتخابات میں عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی لانے کے لیے ووٹ دئیے۔ جس طرح پی ٹی آئی کے جلسوں میں لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو نظر آ رہا تھا ، لگ یہ رہا تھا کہ پی ٹی آئی ضرور کوئی نہ کوئی تبدیلی لے کر آئے گی لیکن ساڑھے تین سال ہونے کو آئے وزیر اظعم پاکستان عمران احمد نیازی کوئی تبدیلی نہیں لا سکے۔ وہ صرف ایک ہی رَٹ الاپتے رہے کہ ’’ن لیگ ، نواز شریف بمعہ فیملی چور ہے ، ڈاکو ہے ، میں ان کو نہیں چھوڑوں گا، میں ان کو رُلائوں گا۔‘‘ اور اپنی ہر تقریر میں اپوزیشن کو آڑھے ہاتھوں لیتے رہے۔ آخرکار انہوں نے اپوزیشن کو نیب کے ہاتھوں جیل میں بند کروا دیا مگر ہوا کیا کہ ان پر کوئی الزام ثابت نہ ہوا اور وہ ضمانتیں کروا کر رہا ہو گئے جن جن کو نیب نے پکڑا اُن سے کچھ برآمد نہیں ہوا یہ صرف انتقامی کارروائی تھی جو خان صاحب نے کرنا تھا کر لی۔ دوسرا وہ کہا کرتے تھے کہ میری ٹیم تیار ہے جو امور مملکت چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہاں پر بھی دیکھا گیا ہے کہ عمران خان نے بنیادی طور پر اپنی ٹیم کا انتخاب الیکٹیبلز (Electables) سے کیا چونکہ وہ تجربہ کار تھے اور مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کر رکھا تھا۔ سو خان صاحب کا خیال تھا کہ میری ٹیم بہتر کارکردگی دکھائے گی ، لیکن افسوس صد افسوس یہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہ اُتر سکی۔ الیکشن سے پہلے کہا کرتے تھا کہ اگر آٹا ، چینی ، بجلی اور پٹرول مہنگا ہو تو سمجھو وزیر اعظم چور ہے۔ دوسرا کہا کرتے تھے میں قرضہ لینے / بھیک مانگنے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ وزیر اعظم خود ان باتوں پر عمل پیرا ہیں؟ چنانچہ یہ باتیں اور چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ ہمارے وزیراعظم یوٹرن کے بادشاہ ہیں۔ وزیر اعظم نے تو کبھی کونسلر، میئر، ناظم کا الیکشن بھی نہیں لڑا۔ اس لیے ان کو عوام کے بنیادی مسائل کا ادراک نہیں ہے۔ خان صاحب قومی اسمبلی کے براہ راست رکن منتخب ہوئے۔ خان صاحب نے ان ساڑھے تین سالوں میں ملک میں بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں کروائے۔ خان صاحب کے وزراء اور پارٹی کے ورکروں نے بلدیاتی الیکشن منعقد کروانے کی مخالفت کی اور یہ دلیل رکھی کہ اگر بلدیاتی الیکشن ہوتے ہیں تو ہمیں یعنی پی ٹی آئی کو کافی ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔ الیکشن سے پہلے وزیر اعظم صاحب بڑا پرچار کرتے رہے کہ ٹیم تیار ہے۔ خان صاحب جس ٹیم کو لانا چاہ رہے تھے وہ تو تیار نہ ہو سکی مگر مشرف کابینہ کے وزراء کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ جب انہوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو کہا کہ وہ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ 50 لاکھ گھر بنائیں گے لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری نے اس کا برملا جواب دیا کہ نوکریاں دینا ہمارا کام نہیں یہ تو پرائیویٹ کمپنیوں کا کام ہے کہ وہ بے روزگاروں کو نوکریاں فراہم کریں۔ اگلی بات 50 لاکھ گھروں کی۔ سوال یہ ہے کہ کہاں گئے 50 لاکھ گھر جن کا وعدہ کیا گیا تھا؟ جناب وزیر اعظم آج بھی لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد جو وعدے کیے تھے وہ کہاں ہیں۔ کیا اسی کا نام تبدیلی ہے؟ ہمارے نزدیک یہ تبدیلی نہیں بلکہ الفاظ کا گورکھ دھندا ہے۔ ہر نیا آنے والا حکمران یہ وعدہ کرتا ہے کہ ہم عوام کو ریلیف دیں گے مگراب لوگ ان باتوں سے تنگ آگئے ہیں۔ جب سے وزیراعظم نے اقتدار سنبھالا ہے تین وفاقی بجٹ پیش کئے۔ تب سے مہنگائی کا جن بے قابو ہو رہا ہے۔ ان ساڑھے تین سالوں میں مہنگائی کا گراف روزبروز بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی کا گراف نیچے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ عوام نے اس تبدیلی سے توبہ کر لی اور وزیراعظم سے مستعفی ہونے کو کہا جا رہا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ اس سے تو نوازشریف کی حکومت بہتر تھی۔ ہمارا کاروبار چل رہا تھا‘ گاہک کا رش لگا رہتا تھا۔ اب تو وہ بھی نہیں ہے۔ لوگوں نے تبدیلی کے نام پر عمران خان کو ووٹ دیا تھا‘ لیکن بدقسمتی سے تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ کہاں گئی آپ کی ٹائیگر فورس؟ یہ ایک فطری امر ہے کہ جب بھی کوئی حکومت مسند اقتدار سنبھالتی ہے تو اسے بہت سے چیلنجز‘ (مشکلات) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان تمام چیلنجز سے نمٹنا بہت زندہ دلی کا کام ہے۔ میرے والد (مرحوم) پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کہا کرتے تھے کہ بیٹا جو گزر گیا سو گزر گیا‘ اسے بھول جائو اور اگلے دس سال کی منصوبہ بندی کرو کہ آگے کیا کرنا ہے۔ ڈاکٹر ایم اے صوفی کی اولاد نے اپنے والد مرحوم کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا اور آج وہ اپنے ماں باپ کی دعائوں سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جس کا انہوں نے ہمیں درس دیا۔ اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم کو چاہئے کہ پرانی حکومتوں نے جوکچھ کیا‘ اسے بھول جائیں اور اگلے دس سال کی منصوبہ بندی کریں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ اپنے منشور کا بغور جائزہ لیں اور اس پر من و عن عمل کرنے کی ٹھان لیں۔