• news
  • image

’ایک پیج پر‘سرور حسین کا تجزیہ

جناب سرور حسین کے کالم انٹرنیٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ اپنے حالیہ کالم میں انہوںنے میری کتاب کو موضوع بحث بنایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرے قارئین کو ان کا نقطہ نظر بھی پڑھ لینا چاہئے۔ سرور حسین لکھتے ہیں:اسد اللہ غالب  کے لئے کہنہ مشق صحافی اور صاحب اسلوب کالم  و نثر نگار کی تراکیب اور القابات بہت چھوٹے  محسوس ہوتے ہیں۔وہ قرطاس و قلم سے ''یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں '' کی طرح وابستہ و پیوستہ ہیں۔انہیں اخباری صحافت سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ کسی بھی شعبے میں تسلسل اور یکسوئی سے مقام حاصل کرنا اوراس حوالے سے معتبر پہچان میسر آ جانا بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔آج کل صحافت اور نیک نامی زیادہ تر ایک دوسرے کی ضد بن کر رہ گئے ہیں اور رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا کی حادثاتی اور موسمی صحافت نے پوری کر دی ہے۔سہل پسندی کے اس زمانے میں بڑے بڑے صحافی کالم کا پیٹ بھرنے کے لئے گوگل سرچ انجن کا سہارا لیتے ہیں اور کالم کا آدھا پیٹ اسی سے بھر لیتے ہیں اور عام قاری اس علمیت پہ سر دھنتا رہ جاتا ہے۔اس سارے منظر نامے میں  اپنے شعبے کے ساتھ دیانت داری اور قلم کی حرمت کی پاسداری چند گنے چنے     قلم کاروں کا ہی مقدر رہ گئی ہے۔اسد اللہ غالب اسی باوقار قبیلے کے فرد ہیں جنہیں  واقعتاًقلم مزدور کہا جاسکتا ہے۔ان کی تحریر اپنے اندر مقناطیسی کشش رکھتی ہے اور مطالعے کا شوق رکھنے والے قاری کو آخری لائن پڑھ لینے تک اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ جملے کا زائد ہونا تو دور کی بات پورے کالم میں جملوں کے درمیان بھی بھرتی کاکوئی لفظ مشکل سے ہی ملے گا۔مربوط جملے، لفظوں کا باہمی ربط و تعلق اور موضوع کو سمیٹتی ہوئی جاندار تحریر۔نہ بے جا طوالت نہ غیر ضروری اختصار۔ایک متوازن تحریر جو اپنے عنوان اور موضوع کے دائرے میں سفر کرتی ہے۔ صحافت کے شعبے کو زندگی دینے کے باوجود ان کے دامن پر نہ کسی پرمٹ کی آلودگی ہے، نہ کسی لیز کا داغ، نہ کسی پلاٹ کی تہمت اور نہ چہرے پر عہدوں اور مراعات  کی بدنما چیچک۔ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ ان کے  دل میں ہوتا ہے اسے لکھنے کا حوصلہ بھی  رکھتے ہیں  اور جو ان کا ذہن سوچتا ہے اسے سپرد قرطاس کرنے کی جرات بھی۔پچھلے دنوں انہیں  گورنر ہاؤس میں ایک  پرائیویٹ تنظیم کی طرف سے ''لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ'' بھی دیا گیا۔ ایسے ہی برسبیل تذکرہ خیال آیا کہ یہ ''لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ'' جو کسی کو زندگی بھر کی خدمات کے صلے میں دیا جاتا ہے وہ صرف ایک میڈل، شیلڈ یاسر ٹیفکیٹ تک ہی کیوں محدود ہوتا ہے؟ یا تو اس ایوارڈ کا نام کچھ اور ہو  یا پھر اس  کے ساتھ ایوارڈ حاصل کرنے والے کو زندگی کی کچھ آسانیاں اچیو کرنے کا بھی سامان منسلک  ہونا چاہیے۔''ایک پیج پر'' ان کے موجودہ حکومت کے قیام کے بعد لکھے گئے کالموں کا مجموعہ ہے جو ''عمران کے بارے میں چند یادیں'' سے شروع ہو کر''   Absolutely No'' تک کا تین سالہ ذہنی و فکری سفرنامہ ہے۔یہ ایک پر امید پاکستانی کا وہ سہانا خواب ہے جس کی تعبیر کی آس اسے توانائی دیتی ہے، یہ پاک فوج  اور عسکری اداروں سے محبت کی ایک داستان ہے جو ہر دردمند پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔یہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کے باہمی اختلافات سے ملک کو پہنچنے والے نقصانات کا نوحہ ہے جو ہر محب وطن کے دل کو غمزدہ رکھتا ہے۔یہ کتاب امیدوں کا تاج محل، آرزؤں  کا بحر بے کنار اور تمناؤں کی پہاڑوں کے دامن سے نکلتی شفاف آبشار ہے،مسائل و مشکلات کی گہری تاریکی میں روشنی کی پھوٹتی ہوئی کرن ہے اور حالات کی دم گھٹنے والی حبس میں شبنمی ہوا کا تازہ  جھونکا ہے۔کتاب کے مندرجات اور اس میں پھیلے ہوئے ان گنت موضوعات میں موجودہ سیاسی قیادت  کے حوالے سے ان کے اچھے کاموں کی تعریف  بھی ہے اور قومی و بین الاقوامی سطح اٹھائے جانے والے اقدامات پر دوسری حکومتوں کے ساتھ ان کے موازنے کو بھی واضح کرتی ہے۔جنرل اسمبلی کے خطاب، کشمیر پر جراتمندانہ موقف اور دیگر سربراہان مملکت سے ہونے والی ملاقاتوں کے پرامید تذکرے جا بجا روشن مستقبل کی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب کا عنوان بہت اچھوتا بھی ہے اور ہماری ملکی تاریخ کا سرنامہ بھی۔جمہوری اور عسکری قوتوں کے اختلافات کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ ہے جس کے نتائج  ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔اسد اللہ غالب صاحب کی تحریروں اور ان کی شخصیت میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ افواج  پاکستان سے ان کی محبت عقیدت کے درجے میں ہے۔''ضرب عضب'' اور''اے وطن کے سجیلے جوانو!'' ان کی اس موضوع پر تاریخی اہمیت کی حامل کتابیں ہیں جنہیں  حالات کے تناظر میں ریفرنس بکس بھی کہا  جاسکتا ہے۔ایک پیج پر '' نہ صرف ایک کتاب ہے بلکہ فہم و شعور رکھنے والے  ہرپاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ کتاب میں موجود کالموں کے عنوانات  پر ایک نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ واقعی ہی کسی کو ہیڈ لائن نکالنے کا ہنر آتا ہے۔سچی بات ہے کہ میرا ذہن تو کتاب کے عنوان پر ہی اٹک کر رہ گیا اور حیران تھا کہ کیسے غالب صاحب نے ہماری پوری سیاسی تاریخ کو تین لفظوں میں بند کر دیا ہے ''ایک پیج پر''۔ افسوس اور امید کے دامن سے پھوٹتا ایک روشن اور جامع عنوان۔اسی پہ غور کرتے کرتے جانے کیوں خود سے سوال کرنے لگ گیا کہ '' ایک پیج پر'' ہونے کے دیرینہ مطالبے اور خواہش کی تکمیل کے اس طویل سفر کے نتیجے میں گزشتہ تین سالوں کے دوران عام  پاکستانی پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اس سہانے خواب کی تعبیر ملنے پر  وطن عزیز میں عام آدمی کی زندگی میں کیا تبدیلی رونما ہوئی؟اور اس کے جواب نے مجھے چونکا کے رکھ دیا کہ ایک پیج پر نہ ہونے کی سزا صرف سیاسی قیادتوں کو ملتی تھی لیکن ایک پیج پر ہونے کی سزا ہر سفید پوش پاکستانی کو  چکانی پڑ رہی ہے۔ آخر کیوں۔۔۔۔؟گستاخی معاف۔!اگر تو'' ایک پیج پر'' ہونے کا مطلب محض باہمی مفادات کا تحفظ ہی تھا تو پھر یہ انہیں مبارک جن کا اقتدار قائم ہے یا  انہیں  جن کے عہدمیں۔غریب تو مر گیا بیچارا!

epaper

ای پیپر-دی نیشن