• news
  • image

جاہل کی تلاش اور شاعر انقلاب حبیب جالب کا تجربہ!!!!

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن والے صرف افراتفری اور گالم گلوچ کرتے ہیں، گالم گلوچ پر انہیں شاباش ملتی ہے۔ اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ جلدی میں منظور کرانا پڑا۔ اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی"۔ پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی اپوزیشن ہے وہاں انہیں پاکستان تحریکِ انصاف ایسے الفاظ کے ساتھ یاد کرتی ہے جس الفاظ کے ساتھ وہ یہاں اپوزیشن کو بلاتے ہیں قومی اسمبلی میں حساب برابر ہو جاتا ہے۔ یعنی ملک کی اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ صرف ایک دوسرے پر زبانی حملوں کے لیے موجود ہیں۔ کسی کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کو جاہل کہا تھا۔ منتخب نمائندوں کو جاہل کہنے کا مطلب نہایت سخت ہے لیکن ہماری جمہوریت میں یہ معمول کی باتیں ہیں۔ دیکھیں یہ حکومت چوتھے سال میں ہے اور سندھ میں نجانے پاکستان پیپلز پارٹی کب سے حکومت میں ہے۔ اتنے عرصے سے حکومت میں ہونے ہے باوجود سندھ کے بنیادی مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے اس دوران سندھ میں اہم لوگوں نے کئی کاروبار کیے ہوں گے اور یقیناً وہ سب کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہوں گے۔ اگر قسمت خراب ہے تو صرف جمہوری نظام کی خراب ہے جہاں دہائیوں سے ایک سیاسی جماعت حکومت میں ہے اور ترقی نام کی کوئی چیز ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ سب ایک دوسرے کو جاہل، چور، نالائق اور فرنٹ مین کہنے میں مصروف ہیں کوئی عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ اگر سندھ میں عقلمندوں کی حکومت ہے تو وہاں آج بھی پانی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم اور سیوریج جیسے بنیادی مسائل منہ کھولے کیوں کھڑے ہیں اور اگر وفاق میں سمجھدار حکومت کر رہے ہیں تو پھر ایک ہزار سے زائد دن گذرنے کے باوجود کوئی تبدیلی کیوں نہیں آ سکی۔ لوگوں کی زندگیوں کو مشکل بنانے والے سب ایک جیسے ہیں۔ آج جو لوگ بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستان کی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان کس نے پہنچایا ہے۔ امپورٹڈ گاڑیوں کی وجہ سے معیشت کو کتنا نقصان پہنچا ہے یہ بھی کسی کو بتانا چاہیے۔ ایک مقامی انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔  لیکن یہاں شاعر عوام، شاعر انقلاب حبیب جالب نے جو لکھا ہے وہ پڑھیں۔شاعر عوام لکھتے ہیں۔ 
میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ہر امید کی کرن
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قوم تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہرِ صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شرپسند ہیں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس سے یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چْپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لوگ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اْس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا

ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب ہے
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قوم محوِ خواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مرحبا
میں نے اس سے یہ کہا
چین اپنا یار ہے
اس پہ جاں نثار ہے
پر وہاں ہے جو نظام
اس طرف نہ جائیو
اس کو دور سے سلام
دس کروڑ یہ گدھے
جن کا نام ہے عوام
کیا بنیں گے حکمراں
تْو ‘یقین‘ ہے یہ ‘گماں‘
اپنی تو دعا ہے یہ
صدر تو رہے سدا
میں نے اس سے یہ کہا
یہاں شاعر انقلاب نے سب کی حقیقت، خاصیت اور اہلیت بیان کر دی ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھ کر نتیجہ نکال سکتا ہے۔ عوام کو بھی ووٹ دیتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ اپنا مستقبل کس کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں۔ ہمارے مسائل کی بڑی وجہ حکمرانوں کے غلط فیصلے ہیں اور سیاست دان یہ فیصلے صرف حکومت میں آ کر کرتے ہیں ان سب کے اپنے کاروبار کامیاب ہیں، وہاں یہ پیسے پیسے کا حساب رکھتے ہیں۔ بیرحمی صرف قومی خزانے کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔
سندھ کے وزیر  بلدیات ناصر حسین شاہ نے کراچی کو ایک بھی بڑا ٹرانسپورٹ منصوبہ نہ دینے پر معذرت کر لی ہے۔ وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ حکومت سندھ نے بسیں لانے کے لیے مختلف منصوبے بنائے لیکن کوئی بھی منصوبہ مکمل کرنے میں ناکام رہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے دو ہزار تیرہ کے بعد کوئی سپورٹ نہیں ملی، اگر صوبوں کو سپورٹ نہیں کرے گی تو مسائل پیدا ہوں گے۔ کوشش ہے اگلے سال جنوری یا فروری میں ریڈلائن کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے اور 200 بسیں بھی کراچی آ جائیں۔ اب نئے سال کا وعدہ کیا جا رہا ہے اور نیا سال چند روز میں شروع ہو جائے گا پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ دو سو بسیں آتی ہیں یا پہلے سے موجود بسوں کی تعداد بھی کم ہو جاتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن