رانا شمیم کا اصل بیان حلفی ر جسٹر اسلام آباد ہا ئیکورٹ کو مو صول ، فرد جرم کی کا رر وائی مو خر
اسلام آباد (وقائع نگار) سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم توہین عدالت کیس میں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق رانا شمیم کی جانب لندن میں نوٹرائزڈ کرایا گیا اصل بیان حلفی کورئیر کے ذریعے لندن سے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو موصول ہو گیا ہے۔ رجسٹرار آفس نے سربمہر لفافے کو ایک اور سیل لگا دی ہے۔ اب آئندہ سماعت پر بیان حلفی لفافہ کھولا جائے گا۔ لفافے پر کانفیڈنشنل کے علاوہ لکھا ہے کہ صرف چیف جسٹس کھول سکتے ہیں۔ قبل ازیں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر شائع ہونے پر توہین عدالت کیس میں تمام فریقین سے بیان حلفی طلب کر لئے۔ رانا شمیم کی درخواست میں کہا گیا کہ نواسے نے اصل بیان حلفی برطانیہ سے پاکستان بھیج دیا ہے۔ عدالت نے کہاکہ کسی کی ذاتی دستاویزات شائع کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ مجھے تاریخ سے کوئی غرض نہیں مجھے کیس سے غرض ہے، میں یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا، میری عدالت پر سوال اٹھایا گیا ہے میں اس کا ذمہ دار ہوں، صرف اتنا بتائیں کہ یہ خبر دینا صحافتی قوانین کے خلاف ہے یا نہیں؟، ہمارے پاس اس عدالت میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کا کیس موجود ہے، رانا شمیم کہتے ہیں کہ بیان حلفی کو نوٹری پبلک منظر عام پر لایا، کیا ہم اٹارنی جنرل سے معاونت لیکر نوٹری پبلک کو نوٹس کریں، کیا صحافت میں آپ کسی کے ایڈمنسٹریٹشن آف جسٹس میں مداخلت کریں گے؟ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی تین سال بعد زندہ ہو اور آکر عدلیہ پر کوئی بھی بات کرے، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی خبر ٹھیک ہے آپ نے اچھا کیا تو مجھے بین الاقوامی قوانین سے سمجھائیں، آپ کسی بین الاقوامی صحافی کا نام دیں انکو عدالتی معاون قرار دے کر رائے طلب کریں گے، لیکن مجھے آپ پر اعتماد ہے آپ ہی عدالت کو مطمئن کریں، لوگوں کی بد اعتمادی اس عدالت پر آئے یہ برداشت نہیں کرونگا، اگر آپ کہتے ہیں کہ ایسا تو ہوتا آیا ہے تو یہ واضح کردوں، یہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہے، مجھے قانون سے بتائیں تاریخ سے بتائیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا بتائیں، یہاں احتساب میرا ہوگا، سب کی ذمہ داری میری ہے، کوئی جج میرا سٹیک ہولڈر نہیں، مجھ سمیت تمام ججز احتساب کے لیے تیار ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ رانا شمیم نے خود کہا کہ میں اس کو میڈیا میں شائع نہیں کرنا چاہتا تھا، بیان حلفی میڈیا میں شائع ہوا اور کیسے ہوا یہ رانا شمیم خود بتا سکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے رانا شمیم پر فردجرم عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ شواہد ہیں کہ بیان حلفی رانا شمیم نے خود لیک کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کیس کا وقت گیارہ بجے ہے تو گیارہ بجے تک انتظار کیا جائے۔ صحافی نے کہا کہ رانا شمیم نے کہاکہ میں نے بیان حلفی نہیں دیا مگر رانا شمیم نے تو مجھے خبر شائع کرنے سے روکا ہی نہیں ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں چیف جسٹس آف پاکستان رجسٹرار کو کال کرنے کا کہیں گے، یا کسی جج کے سامنے خود کال کرے گا، جن دنوں کی یہ بات ہے ان دنوں تو نہ ہی کوئی اپیل دائر ہوئی اور نہ ہی کچھ اور، عدالت نے صحافی کو ہدایت کی کہ بین الاقوامی میڈیا قوانین پر عدالت کو مطمئن کریں، آج کل سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بننے لگے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ نہ آپ اہم ہیں اور نہ ہم، سب سے زیادہ یہاں کے عوام اور سائلین اہم ہیں۔ فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کیس میں اس عدالت نے اپنے لئے سٹینڈرڈ طے کئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صحافی اور رانا شمیم کے بیانات میں واضح فرق ہے، رانا شمیم نے جو بیان حلفی جمع کرایا، صحافی کاؤنٹر بیان حلفی جمع کرائیں۔ عدالت نے صحافی سے کہاکہ آپ نے اور کچھ نہیں کرنا بس عدالت کو مطمئن کریں کہ آپکی خبر قانون کے مطابق ہے یا نہیں، عدالت نے صحافی کو شائع شدہ خبر پڑھنے کی ہدایت کی اور کہاکہ آپ نے جو بھی بتانا ہے بیان حلفی میں بیان کرکے جمع کرائیں، عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہاکہ بیان حلفی خبر سے ایسے لگا کہ عدالت ہدایات لیتی تھی، زیر التوا اپیلوں سے متعلق اس طرح تو رپورٹنگ نہیں کر سکتی، اگر یہ عدالت کوئی آرڈر جاری کرے تو وہاں لندن میں نوٹری پبلک کی انکوائری شروع ہو جائے گی، عدالت کے زیر التوا کیسز کا ذمہ دار ہوں، ہمارے پاس بنیادی حقوق کے کیسز ہوتے ہیں، فئیر رپورٹنگ کے کچھ قانونی تقاضے ہیں۔ کیا بلاوجہ اس کورٹ پر کوئی الزام لگایا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کیا دیکھنا چاہتے ہیں، اس معاملے میں کچھ اور چیزیں بھی ہیں جن کا اظہار میں ابھی نہیں کرنا چاہتا، میں توہین عدالت کے اختیارات کو کبھی استعمال نہیں کروں گا لیکن عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے، تین سال بعد کوئی زندہ ہو کر کہے کہ یہ ہو گیا ہے۔ میں یہاں کے ججز کا ذمہ دار ہوں،یہ کسی سابق چیف جسٹس کے بارے میں نہیں ہے یہ میری عدالت سے متعلق سوال ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کے نوٹسز ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں اس دوران رانا شمیم کا اوریجنل بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے، عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔