• news

شو گر ملز خر یداری سے انکار کر دیں تو کسان گنا کہاں لے جا ئے

تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
 فیصلہ حکومت، عوام یا عدالت کا انصاف کی متلاشی پاکستان کی 22 کروڑ عوام ،کون کرتا ہے ان پر ظلم کون پڑھے گا یہ داستان۔ معزز قارئین! اس وقت ملک میں گنے کی کرشنگ کا سیزن عروج پر ہے اور نئی چینی کی قیمت حکومت کی مقرر کردہ 90 روپے کے نرخوں سے بھی کم ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ایک خبر نظروں سے گزری کہ مڈل مین گنے کی غیر قانونی خریداری کر رہے ہیں چینی مہنگی ہو جائے گی۔ معزز قارئین اب میں آپ کے سامنے گنے کی کرشنگ سے منسلک تینوں فریقوں (پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن ، حکومتی  اور کاشتکار تنظیم) کا نکتہ پیش کروں گا اور اب آپ فیصلہ کریں گے کہ حقیقت میں کون صورتحال خراب کرنے کا ذمے دار ہے۔ پہلے آپ کے سامنے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی پریس ریلیز پیش کر رہا ہوں۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن بارہا اس امر کی نشاندہی کر چکی ہے کہ مڈل مین غیر قانونی طریقوں سے گنے کی خریداری کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں شوگر ملز مالکان حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے مڈل مینوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس بات کی نشاندہی متعدد بار چیف سیکرٹری اور فوڈ سیکرٹری کے ساتھ میٹنگ میں اٹھائی گئی ہے اور ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ یہ صورتحال نہیں پیدا ہو گی مگر اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ شوگر ملز نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ گنے کی اس غیر قانونی خرید کو روکا جائے جو حکومتی مقر ر کردہ قیمتوں کے برخلاف ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ شوگر ملز ایسے غیر قانونی مڈل مینوں سے گنے کی خریداری نہیں کرتیں جو گنے کی کمیابی کا باعث بن رہا ہے اور اس سے کرشنگ کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔ ہم حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر قانونی مڈل مینوں کی نشاندہی کی جائے تا کہ کاشتکاروں اور شوگر ملوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ کین کمشنر پنجاب کا آن ریکارڈ بیان آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں  جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ بات سو فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ پنجاب کی شوگر ملیں مڈل مینوں سے گنے کی خریداری کر رہی ہیں۔ اس غیر قانونی خریداری کو چھپانے کے لیے، شوگر ملز شوگر فیکٹریز (کنٹرول) رولز، 1950 کے رول 16 (10) کے تحت واضح حکم کے باوجود کین کمشنر کے دفتر کو گنے کی خریداری کی کاشتکار کے حساب سے تفصیلات فراہم نہیں کر رہی ہیں۔ ایسا کر کے شوگر ملز قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اعداد و شمار کے اس طرح کے چھپانے کے ذریعے، کاشتکاروں کو بعد میں ان کے واجبات کی ادائیگی سے انکار کر دیا جاتا ہے اور وہ لامتناہی قانونی چارہ جوئی میں الجھ جاتے ہیں۔ میں ایک بار پھر شوگر ملوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ قانون کا احترام کریں اور میرے دفتر کو ڈیٹا فراہم کریں تاکہ گردواری/کراپ رپورٹنگ سے کراس کیویک کے ذریعے مڈل مین کی شناخت ہو سکے۔ جہاں تک کاشتکاروں کی جانب سے صوبہ سندھ میں گنے کی منتقلی کا تعلق ہے، ہم اس پر پابندی نہیں لگا سکتے کیونکہ پاکستان کا آئین آرٹیکل 151 کے تحت بین الصوبائی تجارت کی ضمانت دیتا ہے۔ یہاں میں گنے کے کاشتکاروں کو درپیش ایک انتہائی سنگین مسئلے کی نشاندہی کروں گا۔ کئی شوگر ملوں نے اس حقیقت کے باوجود کہ گنے کے کمشنر نے ایسی اقسام پر پابندی نہیں لگائی ہے، گنے کی کچھ اقسام خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔ قانون کے تحت شوگر ملز ایسی اقسام کو رد نہیں کر سکتیں جن پر کین کمشنر نے پابندی نہ لگائی ہو۔ خاص طور پر رحیم یار خان کے ضلع میں ایسی اقسام کا رقبہ بہت زیادہ ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ اگر پنجاب کی شوگر ملیں اسے خریدنے سے انکار کر دیں تو کاشتکار اپنی فصل کہاں لے جائیں؟ کاشتکاروں کے حقوق کے نگہبان ہونے کے ناطے مجھے انہیں مالی نقصان سے بچانے کے لیے ہر قدم اٹھانا پڑا ہے۔ آخر میں کسان بورڈ پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات حاجی محمد رمضان نے  کسانوں  کے مڈل مین کو گنا فروخت کرنے کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ  کہیں کنڈا نہیں لگا ہوا ہے تاہم  یہ سب   شوگر ملیں خود کراتی ہیں اس وقت شوگر ملیں خود زیادہ سے زیادہ گنا خرید رہی ہیں اور ڈیمانڈ بڑھنے سے گنے کی قیمت بڑھتی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے وہ مڈل مین کا شور مچا رہے ہیں۔ اصل میں شوگر مل مالکان 10 دن تک شوگر ملیں بند کرنے کے چکر میں ہیں ۔اس طرح گنے کی دستیابی بڑھ جاتی ہے اور کسان شوگر ملوں کو سستا گنا فروخت کرنے پر مجبور ہونگے۔

ای پیپر-دی نیشن