سقوطِ ڈھاکہ : ہم نے کیا سیکھا؟
قوموں کی زندگی میں کچھ ایسے دن اور واقعات آتے ہیں جو ان کے لیے فخر یا احساسِ ندامت کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ تعمیری اور تاریخی لمحات ہوتے ہیں تو کچھ سانحات ہوتے ہیں۔ زندہ قوموں کی نشانی یہ ہے کہ وہ ان سب سے سیکھتی ہیں۔ اپنی کامیابیوں پر فخر کرتے ہوئے مزید کامیابیوں کی جانب سفر جاری رکھتی ہیں اور تاریخ میں سنہرے ابواب رقم کرتی چلی جاتی ہیں جبکہ سانحات اور ناکامیوں سے سبق سیکھتی ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرتی ہیں اور ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ آئندہ ایسے سانحات پیش نہ آئیں۔ 16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کے سیاہ دن کے طور پر ذہن میں ابھرتا ہے۔ سولہ دسمبر کو دو مرتبہ پاکستانیوں کے دل چھلنی اور گہرے صدمات سے دوچار ہوئے۔ 16 دسمبر 1971ء کو سانحہ سقوط ڈھاکہ رونما ہوا اور پاکستان دولخت ہو گیا جبکہ 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم طالب علموں پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 144 بچوں سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد شہید ہو گئے۔
16 دسمبر 1971ء کا سانحہ ایک ایسا المیہ ہے کہ کوئی بھی محب وطن پاکستانی اسے فراموش نہیں کر سکتا۔ اس سانحے کے رونما ہونے کے حوالے سے بہت سی بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی تیار کی گئی جسے آج تک پبلک نہیں کیا گیا۔ ایک وجہ تو ہندو کا تعصب تھا جس نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ قیام پاکستان سے ہی وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ لیکن دشمن سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کی ، اس کی مکروہ کوششوں کے آگے بند باندھنے کی۔ دشمن کی بساط اُلٹنے کی۔ ہر وہ حربہ اختیار کرنے کی جس سے دشمن کو منہ کی کھانی پڑے اور وہ اپنے زخم چاٹتا رہ جائے جس طرح ہم نے ستمبر 1965ء کی جنگ میں کیا اور تاریخی فتح حاصل کی لیکن ہوس اقتدار، سیاستدانوں کی خودغرضی و نااہلی اور مفاد پرستی، ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو قربان کرنے کی روش نے صرف پانچ سال کے عرصے میں فتح کو شکست اور فخر کو ہزیمت میں بدل ڈالا۔ دشمن کو الزام دینا آسان ہے لیکن خود اپنی ذمہ داری قبول کرنا مشکل ہے۔ 7 دسمبر 1970ء کو ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں 300 نشستوں پر انتخاب ہوا۔ 13 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص تھیں۔ 300 نشستوں میں سے 162 مشرقی پاکستان اور 138 مغربی پاکستان کی تھیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی تھی جبکہ باقی دو نشستوں پر قومی جمہوری محاذ کے نور الاامین اور اقلیتی بدھ رہنما راجہ تری دیو رائے منتخب ہوئے تھے۔ مغربی پاکستان کی 138 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی 81 نشستیں حاصل کر پائی۔ ان میں بھی 63 نشستیں صرف پنجاب سے تھیں۔ انتخابی نتائج کے مطابق حکومت کرنے کا حق مجیب الرحمن کو ملا تھا لیکن بھٹو اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہ تھے لہٰذا انہوں نے مجیب کے 6 نکات کی شدت سے مخالفت شروع کر دی۔ حالانکہ اس سے قبل وہ ساڑھے پانچ نکات تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ اگر اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس ہونے دیا جاتا تو اس میں بہت سے مسائل باہمی افہام و تفہیم سے حل ہو سکتے تھے لیکن اقتدار کی رسہ کشی سے ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا نعرہ بلند ہوا اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ پاکستان دو ٹکڑے ہوا تو اس کا بڑا نقصان بہاری مہاجروں کا ہوا۔ ان کا بے دریغ قتل عام ہوا۔ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ پاکستان کی محبت میں وہ بہاری آج بھی بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مظلومانہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہم اور ہماری حکومت ان کی قربانیوں کو فراموش کر چکی ہے۔ صرف نوائے وقت گروپ آج بھی ان کی بحالی اور امداد کے لیے قومی خدمت انجام دے رہا ہے۔ بہاریوں کی تیسری نسل پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم اور فوج متحد ہو گئی تھی۔ ایک احساس جاگا تھا بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ کچھ پرسنجیدگی سے عمل درآمد بھی ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی میں بہت حد تک کمی آ گئی۔ بڑی تعداد میں دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچے۔ افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں نے بھی قربانیاں دیں۔ ابھی بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا وجود اور اس کا ایٹمی پروگرام ازلی دشمن بھارت ہی نہیں اور بھی بہت سے ممالک کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ سازشیں آج بھی عروج پر ہیں۔ صوبائی اور لسانی عصبیت کو ابھی بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کو اب بھی بیرونی امداد حاصل ہے لیکن ہمارے حکمران اورسیاستدان آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جا رہی ہے۔ سیاسی مخالفین کو نشانہ تو بنایا ہی جا رہا تھا اب وفاق کی طرف سے ایک صوبے کی حکومت اور سیاسی پارٹی کی طرف بھی وزراء نے توپوں کا رخ موڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس صوبے کے وزراء نے کہہ دیا ہے کہ یہ نہ ہو کہ ہم کچھ اور سوچنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سقوطِ ڈھاکہ سے ہم نے کوئی سبق سیکھا؟