پاک فوج کی جرأت و بہادری کی لازوال داستانیں
امجد حسین امجد
کسی بھی فوج کی کامیابی کے لئے علاقے سے واقفیت، مقامی آبا دی کا تعاون اور بر وقت کمک پہنچنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ 1971 میں مغربی پاکستان سے تقریباً ایک ہزار میل دور سخت موسم، بارش، مْکتی باہنی جیسی سازشی تحریک اور مقامی آبادی کے عدم تعاون کے باوجود پاک فوج کے بہادر افسران اور جری جوانوں نے اپنی مٹی کے دفاع کے لئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔ وہ بریگیڈئیر تجمل حسین ملک جیسے بریگیڈ کمانڈر ہوں یا کرنل سلطان جیسے کمانڈنگ آفیسر ہوں، میجر اکرم شہید جیسے کمپنی کمانڈر ہوں یا صوبیدار گل محمد جیسے جے سی او ہوں، حوالدار حکم داد جیسے این سی او یا سپاہی نواب جیسے جوان ہوں، پاک فوج نے اپنے پرچم کی سربلندی کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر حالات کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ وہ معرکہ ہلی ہو یا جمال پور کا دفاع، بلونیا ویلیج کی دشمن کے قبضے سے آزادی ہو یا کھلنا کی لڑائی، پاکستان آرمی ایوی ایشن کے بہادر سپوتوں کی کہانی ہو یا کیپٹن شجاعت لطیف کی چلتی ٹرین سے چھلانگ کی داستان شجاعت، میجر راجہ نادر پرویز کی بنائی سرنگ ہو یا لیفٹیننٹ خالد کرک کی داستان جرأت، ہماری سپاہ نے اپنی عظیم روایات کو برقرار رکھا۔
سرمیلا بوس کے مطابق پاکستان آرمی نے عددی کمتری کے باوجود شاندار دفاع کیا اور حیران کن حد تک اعلیٰ پرفارمنس دی۔ انڈین میجر جنرل لچھمن سنگھ کے مطابق بریگیڈئیر تجمل حسین کے بریگیڈ نے غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل پالت کے مطابق پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں زمین کے ہر انچ کا خوب دفاع کیا اور ڈاکٹر منکدان کے مطابق ہلی بوگرہ والی لڑائی سخت ترین تھی۔ جنرل اروڑہ کے مطابق ہلی بوگرہ کے نزدیک بید ہوریا کی جنگ انتہائی خونی جنگ تھی۔ ہلی کا معرکہ جنگ کے آغاز سے پہلے شروع ہو اتھا اور ہائی کمان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد تک جاری رہا۔ اسی بنیاد پر انڈین آرمی نے اس بیٹل کی گراؤنڈ سٹڈی کے لئے ٹیمیں بھجوائیں۔ انڈین جنرل ایچ ایس پننگ نے کھلنہ کی لڑائی کے بارے لکھا تھا۔.. کھلنہ کی جنگ 1971 کی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی ایک انتہائی اہم تدبیر کی لڑائی تھی۔ یہ حکمت عملی کے مقصد سے ہٹ کر (Attrition War)دشمن پرٹوٹ پڑنے والی جنگ تھی اور یہ 17 دسمبر کی شام تک جاری رہی۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کیونکہ اس جنگ نے میرے دل میں پاک آرمی کے بریگیڈئیر محمد حیات کے لئے زبردست احترام پیدا کر دیا۔ ذیل میں تین ایسے اہم معرکوں کا ذکر ہے۔
ہِلی کا معرکہ
205 بریگیڈ کے علاقے ہلی کی حیثیت ایک شہ ر گ کی سی تھی۔ مشرقی پاکستان کے شمالی علاقوں میں متعین ساری فوج کی سپلائی لائن یہاں سے گزرتی تھی۔ دشمن کا یہ منصوبہ تھا کہ ہلی پر قبضہ کر کے شمال میں متعین فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور سپلائی لائن کاٹ دی جائے۔ ہلی پر قبضہ کرنے کے لئے دشمن کو 202 ماؤنٹین بریگیڈ، 2 ماؤنٹین رجمنٹس، آرٹلری، T 55. ٹینکوں کے ساتھ ایک سکواڈرن کی مدد حاصل تھی۔ میجر اکرم 4 ایف ایف رجمنٹ کی چارلی کمپنی کمانڈ کر رہے تھے۔ ان کے جوانوں کی دلیری، جرأت اور پامردی بھی بے مثال تھی۔معرکے میں میجر محمد اکرم مخصوص پروقار آواز میں موقع محل کے لحاظ سے احکامات جاری کر رہے تھے،اور ان کا قلب جرأت ایمانی سے منور ہے۔ ان کے انداز اور تیور دیکھ کر سارے مجاہدوں کے حوصلے بلند تھے۔اس کامیاب حکمت عملی کے تحت انہوں نے نا صرف دشمن کو پیش قدمی سے روکے رکھا بلکہ اس کے کئی ٹینک تباہ کئے اور بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا۔ 4 اور 5 دسمبر 1971 کی رات کو دشمن نے چار بار میجر اکرم کی کمپنی پر حملہ کیا لیکن ہر بار دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ دشمن کا توپ خانہ اور ٹینک آگ اگل رہے تھے۔میجر محمد اکرم ایک سپاہی کو ساتھ لے کر ایک 40 ایم ایم راکٹ لانچر کے ساتھ دشمن کے ٹینکوں پر حملہ کرنے کے لئے آگے چلے گئے اور دشمن کے ٹینکوں کے عین سامنے 100گز پر پوزیشن سنبھالی اور یکے بعد دیگرے 3 ٹینکوں کو تباہ کر دیا۔موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر مقتل میں اْتر ے، پندرہ دن تک دشمن کے حملوں کو مردانہ وار روکتے رہے اور اپنی زمین کے ایک انچ پر بھی دشمن کو قبضہ نہ کرنے دیا۔ آخر دشمن کے ٹینک کی ایک براؤننگ گن کا براہ راست فائر ان کی دائیں آنکھ کے قریب لگا اور 5 دسمبر کو آپ نے شہادت کا رتبہ حاصل کیا اور ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز '' نشان حیدر'' کے حق دارٹھہرے۔
جمال پور کا دفاع
ہندوستانیوں نے جمال پور گیریژن کو جنوب سے روکنے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ وہ ڈھاکہ کی طرف پیچھے نہ ہٹ سکے۔ ان کا ارادہ جمال پور میں 31 بلوچ کو ختم کرنے کا تھا تاکہ جنوب میں آگے بڑھتے انہیں ڈھاکہ جانے والی مہم میں مزاحمت نہ آئے۔ جمال پور کو 8 دسمبر سے ہی ہوائی حملوں اور توپ خانے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ 10 دسمبر کو جمال پور پر ہوا سے نیپام اور راکٹوں سے حملہ کیا گیا۔ ہندوستانی بلڈ اپ 10 دسمبر تک جاری رہا۔ سنٹرل سیکٹر واحد سیکٹر تھا جہاں ہماری فوج ڈھاکہ کے شمال میں ان سے دوبارہ لڑنے کے لئے ہندوستانی یلغار سے نکل گئی۔ کمانڈنگ آفیسر31 بلوچ، لیفٹیننٹ کرنل سلطان احمد جمال پور سے نکلنے کے بعد ڈھاکہ پہنچے ، انہیں انڈین فوج کی پیش قدمی روکنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ان کے پاس اپنی بٹالین کے تقریباً 100 افراد اور کچھ نیم فوجی دستے تھے۔ چندنا کے قریب 31 بلوچ روڈ بلاک کے خلاف بھارتی حملے کو توپ خانے کی مدد سے پسپاکیا گیا۔ جب بریگیڈئیر ایچ ایس کلر نے کمانڈر جمال پور گیریژن کو خط لکھا کہ آپ کا گیریژن تمام اطراف سے مکمل طور پر محصور ہو چکا ہے اور ہتھیار ڈالنے کے لئے کہا تو کمانڈر جمال پور گیریژن نے لکھا کہ وہ تو لڑائی کا آغاز ہے، اصل جنگ تو اب شروع ہوئی ہے۔ ہم موت سے نہیں ڈرتے بلکہ اس سے پیار کرتے ہیں۔ ہم روایات کے امین ہیں، عسکری تاریخ میں جگہ جگہ ہماری انسان دوستی اور مہمان نوازی کی داستانیں رقم ہیں۔ دوبارہ ملاقات ہو تو ہمارے ہاتھوں میں قلم کی بجائے سٹین گن ہو اور برتری کے احساس کو دل سے نکال کر آنا جو اپنے دل میں سجائے بیٹھے ہو۔ کمانڈر جمال پور گیریژن نے یہ خط بْلٹ میں لپیٹ کر بھیجا۔
بلونیا ویلیج سے بھارتی فوج کی پسپائی
4 ایوی ایشن سکواڈرن نے 25 مئی سے 16 دسمبر 1971 تک کرنل لیاقت بخاری کی قیادت میں دن رات 861 اہم اور خطرناک جنگی معرکوں میں حصہ لیا۔ اسی طرح کے ایک معرکے میں 18 جون 1971 کو جنرل آفیسر کمانڈنگ جنرل رحیم نے کرنل لیاقت بخاری کو بتایا کہ بلونیا ویلیج کو بھارتی فوج کے قبضہ سے آزاد کروانے کے لئے پیش قدمی کے دوران ہماری دو انفنٹری بٹالین دشمن کی بارودی سرنگوں اور توپ خانے کی زد میں آ گئی ہیں۔ جی او سی کی جانب سے اس علاقے میں کمانڈو ایکشن کا فیصلہ کیا گیا اور پاک فوج کے اس تاریخی ہیلی بورن آپریشن کو پلان کیا گیا۔ بلونیا ویلیج میں بھارتی فوج دو جگہوں پر پوزیشن سنبھالے بیٹھی تھی۔ ایوی ایشن کو ان دونوں پوزیشنز کے وسط میں کمانڈوز اتارنے تھے۔ اندھیرا چھاتے ہی انہوں نے میجر علی جواہر کے ساتھ 24 کمانڈوز جو کیپٹن نادر کے زیر کمان تھے، کے ہمراہ ٹیک آف کیا۔ دو منٹ بعد میجر علی قلی خان نے میجر پیٹرک کے ہمراہ 24 جوانوں کو لے کر پرواز کی۔جونہی وہ دشمن کی پوزیشن پر پہنچے تو ہر طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ انہوں نے فائرنگ کو نظر انداز کر کے اللہ کا نام لیا اور لینڈنگ کر دی
میجر علی قلی خان کے ہیلی کاپٹر میں موجود کمانڈوز کودنے کے لئے مختلف مقامات تلاش کرتے رہے۔ جسے دیکھ کر دشمن بوکھلا گیا اور یہ سمجھا کہ مختلف ہیلی کاپٹر اس مقام پر لینڈنگ کر چکے ہیں۔عین وسط میں لینڈ نگ کے باعث دشمن کی اگلی اور پچھلی صفوں میں موجود بھارتی سپاہی پاکستانی قبضے کے خوف میں بوکھلا کر رات بھر ایک دوسر ے پر فائرنگ کرتے رہے۔اس ہیلی بورن آپریشن کے باعث بھارتی فوج میں اتنی دہشت پھیل گئی کہ وہ پو پھٹنے سے پہلے ہی اپنے ہتھیار چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئے۔ اگلی صبح ہماری دو انفنٹری بٹالینز نے بغیر کسی رکاوٹ کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔الغرض مشرقی پاکستان میں پاک فوج نے مشکل ترین حالات میں بھی کمال حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کیا۔جس پر پاک فوج کی اعلیٰ پرفارمنس کا دشمن اور انٹرنیشنل میڈیا بھی معترف تھا۔؛؛؛؛؛؛؛؛