• news

ملازمین بحالی کیس:فیصلہ آج سنایا جائیگا،حکومتی تجاویز نہیں قانون دیکھیں گے،سپریم کورٹ


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے حکم پر برطرف سرکاری ملازمین کی بحالی سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ برطرف سرکاری ملازمین بحال ہونگے یا نہیں سپریم کورٹ آج فیصلہ سنائے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیتے ہوئے کہا موجودہ کیس نظر ثانی کی حدود سے باہر نکل چکا ہے۔ فیصلہ حکومتی تجاویز پر نہیں آئین اور قانون کے مطابق کرینگے۔ ملازمین کے بحالی کا قانون تقرریوں کے طے شدہ اصولوں کے منافی ہے۔ معاونت کریں گے تو ٹھیک بصورت دیگر اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ تجاویز جانیں اور ملازمین جانیں عدالت صرف قانون کو دیکھے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے برطرف ملازمین کے بحالی سے متعلق نظر ثانی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے حکومتی تجاویز کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جن ملازمین کو مس کنڈکٹ یا ڈیوٹی سے غیر حاضری پر نکالا گیا ان پر ہماری تجاویز کا اطلاق نہیں ہوگا، اگر تمام ملازمین کے وکلاء حکومتی تجاویز کی حمایت کرتے ہیں تو ان پر عمل ہو گا، اگر ملازمین کے وکلاء کو حکومت کی تجاویز پر اعتراض ہے توہم واپس لے لیں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر عدالت نظر ثانی منظور نہیں کرتی تو تجاویز برقرار ہیں، حکومتی تجاویز سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید ہم ملازمین کی بحالی کے مخالف ہیں، عدالت سے استدعا یہی ہے کہ نظر ثانی درخواستیں منظور کرے، گریڈ ایک سے 7 تک کے ملازمین کی بحالی غیر مشروط ہونی چاہیے۔ گریڈ 8 سے 17 کے ملازمین اگر متفق ہوں تو ہی تجاویز قبول کی جائیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریماکس دیتے ہوئے کہا مسٹر اٹارنی جنرل، اپنے دماغ میں یہ بات رکھیں کہ موجودہ کیس کا رنگ بدل چکا ہے، موجودہ کیس نظر ثانی کا ہے، لیکن ہم نے نئے سرے سے قانون کی تشریح شروع کی۔ ملازمین کے کیس میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے، ملازمین کا کیس آرٹیکل 184/3  کا اچھا کیس تھا، لیکن مرکزی کیس میں اس کا اطلاق ہو چکا ہے، سپریم کورٹ آئین اور آئینی حدود کی پابند ہے، عدالت 30 سال سے بھرتیوں کے طریقہ کار پر عملدرآمد کرا رہی ہے، تجاویز جانیں اور ملازمین جانیں عدالت صرف قانون کو دیکھے گی۔ یقینی بنائیں گے کہ کوئی چور دروازے سے سرکاری ملازمت میں داخل نہ ہو سکے اور آئینی اداروں میں کوئی غیر آئینی طریقے سے داخل نہ ہو۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، ہم آپ کی جانب سے ایکٹ پر ٹھوس دلائل دیے جانے کے خواہش مند تھے۔ ہمارے لیے آئین اور قانون ہی سب کچھ ہے۔ سرکاری محکموں میں تقرریوں کے چند بنیادی اصول ہیں۔ حکومت تقرریوں کے ان اصولوں پر عمل کرنے کی پابند ہے۔ تقرریوں کے لیے اشتہار، ٹیسٹ، میرٹ شفافیت کے لیے ضروری ہیں۔ عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ سرکاری محکموں میں نوکریوں کی بندر بانٹ نہ ہو۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ گریڈ ایک سے سات تک کی تقرریوں کی کوالیفکیشن سخت نہیں ہوتی۔ ایسی بھرتیوں کا بھی اشتہار ہونا چاہیے۔ حکومتی تجاویز کا جائزہ ضرور لیں گے لیکن فیصلہ آئین قانون کے مطابق ہوگا، لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعین کہیں نہیں ہوا کہ ملازمین کی بھرتیاں قانونی تھیں یا نہیں۔ عدالت قانون بحال کرتے ہوئے اگلے گریڈ میں ترقی نہ دے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں۔ متعلقہ ادارے ہی اس حوالے سے اصل صورتحال بتا سکتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی کی پروموشن جاتی ہے تو چھ ہزار ساتھیوں کیلئے قربانی دیدے۔ سرکاری ملازمین کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ سیکڈ ایمپلائیز ایکٹ کو کالعدم قرار دینے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں متاثرہ ملازمین کو سنیارٹی مل گئی ہے۔ آئی بی کے ملازمین جس گریڈ میں بحال ہوئے تھے اسی گریڈ پر آج بھی کام کر رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے ایکٹ کے آئین سے متصادم ہونے کا معاملہ ہے۔ سنیارٹی کا معاملہ اس وقت ہم نہیں دیکھ رہے۔ نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ آج جمعہ کو گیارہ بجے سنایا جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن