• news

کارڈ کہانی

سب سے پہلے زندگی میں جس کارڈ کی ضرورت محسوس ہوئی وہ ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آتے ہی ایک عدد"راشن کارڈ"تھا ۔آٹااور چینی کی فروخت اسی کارڈ کے ذریعے ہوتی یہ دونوں چیزیں کھلی مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھیں۔دوسرے جس کارڈ سے واسطہ پڑاوہ تھا کالج کا"سٹوڈنٹ کارڈ" کیونکہ اسے سفر کے لئے کسی بس کے کنڈیکٹر کودکھا کرآدھا کرایہ ہی ادا کرنا پڑتا تھا یا اگر بیس میل کے اندر اندر کہیں جانا ہوتو اس کا کرایہ چارآنے یاپچیس پیسے ہوتا۔عجیب بات مگر یہ تھی کہ یہ رعائت قومی ادارہ ریلوے نہیں دیتا تھاذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد قوم کے طلباء کویہ پہلا تحفہ دیا۔نصف کرائے میں سفرکرنا یا محض پچیس پیسوں کے عوض بیس میل تک کا سفر کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔اس کیلئے طلباء کو سڑک کے عین درمیان آکربس کوروکنا پڑتا یا ٹولیوں میں سفر کرنا پڑتا۔طلباء اوربس کنڈیکٹروں کے درمیان یہ رعائت کبھی کبھی خونی ھنگاموں کاسبب بھی بنتی مگر کبھی کسی ایک فریق کوہتھیار ڈالنا پڑتے توکبھی دوسرے کو۔وقت گذرتا رہا ۔پھریہ کارڈتب بیکار ہوگیاجب ویگن، ایئر کنڈیشنڈکوچ یا ڈائیووقسم کی بسوں نے لے لی۔اسکے بعد دوسرا تعارف ـ"شناختی کارڈ"سے ہوا یہ سکیم بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں متعارف کرائی گئی۔پہلے پہل تولوگوں نے اسے ایک "سازش"سمجھا اور قومی شناختی کارڈبنوانے سے عرصے تک گریز کرتے رہے۔اسی اثناء میں جب پاسپورٹ جیسی اہم دستاویز کے دروازے ہر پاکستانی کے لئے کھول دیئے گئے تو شناختی کارڈاس کے حصول کیلئے لازمی قرار دے دیا گیا۔اب حج ،عمرہ اوردیگر ممالک کے سفرکیلئے پاسپورٹ لینا ہوتا توبنیادی دستاویز شناختی کارڈ ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔ سعودی عرب،دوبئی اور خلیج کی دوسری ریاستوں میں پاکستانی افرادی قوت کی طلب بڑھی توشناختی کارڈ کے دفاتر پر لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔فوٹوگرافروں کے کام میں تیزی آئی فارم کی تصدیق کرنیوالے ہیڈ ماسٹر صاحبان کے احترام میں اضافہ ہواور اس ادارے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کوروز گارملا۔جس تیسرے کارڈ سے واسطہ پڑا وہ "پنجاب بارکونسل"کاکارڈ تھا۔قانون کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ہر وکیل کوکم ازکم چھ ماہ تک کسی سینئر وکیل کے ساتھ"اپرنٹس شپ"یعنی شاگردی کرنا پڑتی ہے ۔اسکے بعد مقامی بار سے پنجاب بارکونسل کے ایک یا ایک سے زائد ممبران اس کے مقدمات کا جائزہ لے کر انٹرویو کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسکے کردار کی تصدیق کرکے پنجاب بارکونسل کو لائسنس کیلئے سفارش کرتے ہیں اور یوں پنجاب بارکونسل کالائسنس ایک طویل اور صبرآزما سفر کرنے کے بعد عطا کیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اب اس قائدے پر عمل نہ کیا جاتا ہومگر پرائیویٹ لاء کالجوں کے قیام سے قبل ایساہی تھا۔یہ کارڈ میں نے مارچ 1979ء میں حاصل کیا۔اس کے بعد 2000ء کے لگ بھگ ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کرلی اورکمپیوٹر کا استعمال سرکاری دفاتر کا حصہ بن گیا توجنرل پرویز مشرف نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کاادارہ قائم کیا۔اس محکمے نے اپنے عملے کے علاوہ بہت سے پرائیویٹ لوگوں کی خدمات بھی حاصل کیں جو کمیشن پر کام کرتے تھے۔اس کارڈ میں ہر درخواست دہندہ کے مکمل کوائف کمپیوٹرکے حوالے کردیئے جاتے اور ایک خوبصورت ساچھوٹا ساکارڈ بناکر دے دیا جاتا۔اس کارڈ میں یہ سہولت بھی موجود تھی کہ جس آدمی نے اپنا جو بھی نام لکھوانا ہوایک بارلکھوالے اسکے بعدیہی اس کا مستقل نام ہوگا۔تبدیلی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ۔پاکستان میں اب تک شہری کی شناخت کیلئے جو بھی دستاویز تیارکی گئیں۔ ان میں نادرا شناختی کارڈاوردیگر دستاویزات سب سے معتبر ہیں جنہیں دنیا بھر کی عدالتوں میں بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ امریکہ کاگرین کارڈ دنیا بھرکے لوگوں کا ایک خواب ہے۔اسے حاصل کرنا البتہ بہت مشکل ہے کبھی آسان ہوتا ہوگامگرنیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے بعد پاکستانیوں ،عرب اور افغانیوں سمیت اس کا حصول دیگر کئی ممالک کے لوگوں کیلئے بھی مشکل ہوگیا۔جس کے پاس گرین کارڈ ہواس کیلئے امریکہ میں کام کرنا اور زندگی گذارنا بڑاآسان ہوجاتا ہے دنیا کے کئی ممالک کا ویزا بھی نہیں لینا پڑتا مگر سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو اپنے عزیز واقارب کو امریکہ بلوانا چاہتے ہوں ۔صرف ووٹ ڈالنے کے حق سے یہ لوگ محروم رہتے ہیں۔ مگرغیر جمہوری ملکوں کے لوگوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان کے بینکوں کی انتظامیہ مارشل لاء کے نمک خوار سیاست دانوں کودھڑا دھڑبلا گارنٹی قرضے دے رہی تھی تب دنیا آٹومیٹڈ ٹیلر مشین (اے ٹی ایم)کارڈ دور میں داخل ہوچکی تھی۔آج کل پاکستان سے بیرونی سفر تورہا ایک طرف اندرونی سفر کیلئے "ویکسین کارڈ"بھی ضروری ہوچکا ہے۔پتھر کے دور کا انسان غاروں سے نکل کرنہ جانے کون کون سے کارڈوں کی دوڑ میں شامل ہوچکا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن