• news

نیازی صاحب! اب تو گھبرالیں؟

پاکستان ترقی پذیر ممالک کی اس فہرست میں شامل رہا ہے جو غربت‘ بے روزگاری اور کرپشن کی زد میں رہے‘ لیکن اپوزیشن کے دعوے کے مطابق انٹرنیشنل پاورٹی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے جو کہ ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو روز اول سے غربت کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے جہاں نومبر 2021 ء تک مہنگائی کی شرح 11فیصد تک پہنچ گئی ہے اور مہنگائی میں پچھلے تین سالوں میں دس گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ مانیٹری پالیسی کے مطابق مہنگائی کی اصل وجہ بجلی کی قیمتوں میں 38 روپے فی یونٹ اضافہ ہے جس نے ان کی زندگیوں کو ڈپریشن سے بھردیا ہے۔ درحقیقت بل کے عارضے میں مبتلا لوگ زندگی کی خوشیوں سے اسقدر محروم ہوچکے ہیں کہ ان کو کوئی سدھ بدھ ہی نہیں رہی ہے۔ شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہ ایک بادشاہ کو کشتیوں کا سفر بہت پسند تھا۔ ایک دن وہ عازم سفر ہوا۔ جب اس نے کشتی کو اپنے مصاحبوں کے ہمراہ پانی میں اتارا تو ایک مصاحب پانی سے بہت ڈرتا تھا جونہی کشتی روانہ ہوئی اس نے شوروغل کرنا شروع کردیا ہائے میں مرگیا‘ مجھے بچاو‘ بادشاہ اس شوروغل سے بہت گھبراگیا۔ اس نے وزیر باتدبیر کو بلایا اور مسئلہ کا حل طلب کیا کہ جس سے مصاحب خاموش ہوجائے۔ وزیر باتدبیر کا ہر دور اور ہر زمانے میں بڑا مؤثر کردار رہا ہے۔ امین الرشید کے دور میں جب مامون بھرپور حملے کیلئے روانہ ہوا‘ امین الرشید اس وقت دریا کے سفر پر تھا۔ اسے بتایا گیا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں سب اچھا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اسی ’’سب اچھا ہے‘‘ کی عبارت سے معمور ہے جس نے آخرکار حکومت اور حکمران دونوں کیلئے مسائل پیدا کئے۔ وزیرباتدبیر نے بادشاہ سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں مصاحب کا علاج میرے پاس ہے۔ اس نے مصاحب کی پانی میں اتنی ڈبکیاں لگوائیں کہ وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا اور کشتی میں سراسیمہ ہوکر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ ہمارے عوام غربت کے گہرے سمندر میں ڈبکیاں لگا لگا کر اپنی سدبدھ کھو بیٹھے ہیں۔ چینی کہاوت ہے کہ عوام کو فکر روزگار میں مبتلا کرانا درحقیقت حکمرانوں کا سیاست میں اجارہ داری قائم کرنا ہے۔ کارل مارکس غربت کی وجوہات میں کرپشن کو بھی اہم گردانتا ہے۔ ہارون الرشید کے مصاحب خاص میں ایک شخص رشوت خور تھا۔ ہارون الرشید نے اسے بہانے بہانے سے بلایا اور کہا اگر آپ کی قمیص پر داغ ہو تو کیا کروگے‘ وہ سمجھ گیا اور ہارون سے معافی مانگی ہمرا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم سمجھنے سے قاصر ہیں پاکستان کی چوہتر سالہ تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سنیے آپ کی قمیض پر داغ ہیں۔ کوئی بات نہیں صاف ہوجائیں گے۔ کسی اچھے ڈٹرجنٹ سے جی سنیے آپ کے دامن پر کرپشن کے بھی داغ ہیں جی کوئی بات نہیں وہ بھی صاف ہوجائیں گے کیسے جی ضمیر کی موت سے ویسے یہ فارمولا سب پر اپلائی نہیں کیا جاسکتا۔ کرپشن کے ساتھ ہمیشہ ایمانداری کا عنصر لازمی جڑا ہوتا ہے اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ اکیسویں صدی کے تناظر میں معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے جدید معاشی تقاضوں کی ضرورت ہے۔ ہر حکومت کا شیوہ رہا ہے کہ بجٹ کے بعد منی بجٹ ناگزیر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے منی بجٹ عوام پر کس طریقے سے اثراندازہوگا۔ عوام کوکیا ریلیف ملے گا۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس تین آپشنز ہیں حکومت کی ترجیحات میں عوام کے مسائل کا حل سیاستدان نوشتہ دیوار پڑھکر خلوص نیت سے مستحکم سیاسی نظام پر متفق ہو جائیں کہ آج آپ جو بوئیں گے وہ کاٹیں گے۔ وہ زمانے لد گئے کہ جب نوشیرواں عادل نے ایک شخص کو دیکھا جو کل کیلئے بیج بورہا تھا۔ ہم نفرت کے بیج بورہے ہیں۔ تیسرا آپشن ہمارے پاس یہ ہے کہ صوبائی‘ گروہی اور لسانی تعصبات سے پاک ہوکر صرف اور صرف قومی مفادات کا سوچیں اگرہم ان اصولوں پرعمل پیراہوتے ہیں تو معاشرہ اہرام کی صور ت بلند ہوتا ہے اور معیشت نیچے سے اوپر کی طرف پروان چڑھتی ہے‘ لیکن صورتحال اسکے برعکس ہو تو ہماری کیفیت الٹے اہرام کی سی ہوجاتی ہے۔ جہاں معیشت عدم استحکام کاشکار ہوتی ہے اور ہماری سوچ بھی لڑھکنے لگتی ہے۔ معاشی حقائق ہماری نیک خواہشات کے تابع نہیں ہوتے اور نہ ہی کاغذ پر بکھرے خیالات کے ہر سانچے میں فٹ بیٹھیں۔ بھٹو کی اقتصادی فکرسے نہ توغربت میں کمی آئی اورنہ ہی قومی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ بھٹو کادور وسائل کو قومی ملکیت میں لینے کادور تھا کاروباروں کو قومی ملکیت میں لینے سے نہ صرف پاکستان میں منفی نتائج سامنے آئے بلکہ دنیا بھر میں جہاں اس فارمولے کو اپنایاگیا اسکے منفی نتائج ہی نکلے۔ ہمارے پاس اسکے سواکوئی راستہ نہیں ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلہ سے نمٹنے اور تیزرفتار معاشی ترقی کیلئے خارجہ‘ داخلہ اور اقتصادی پالیسیوں کے درمیان تضادات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں اور یہ بات تسلیم کریں کہ معاشی عدم استحکام کسی سازش کا نہیں‘ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن