ضبط کا یارا نہیں دل کو
آج کی یہ چند سطریں لکھتے ہوئے قلم خون کے آنسو رو رہا ہے اوردل ہے کہ بیٹھا جا رہا ہے، دل کو ضبط کا یارا ہی نہیں۔دل و دماغ کو بادلِ ناخواستہ بعض اوقات ایسی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں زبانیں گُنگ، دماغ ماؤف اور قلم عاجز آ جاتے ہیں۔ سوچ سمجھ نہ جانے کیوں جواب دے جاتی ہے،نہ کچھ سجھائی دیتا ہے نہ ہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔جاگتی آنکھیں دیکھنے سے عاجز آ جاتی ہیں۔ قوت اظہارکولفظ نہیں ملتے۔دل حوصلہ ہی نہیں پاتا۔ میں ہی نہیں شائد ہر کِسی نے خودکو اتنا بے بس کبھی نہیں پایا ہو گا۔ 16دسمبر پہلے ہی ملکی تاریخ کا ایک دلخراش واقعہ تھا کہ عین اسی تاریخ پر ایک اور لرزاخیز واقعے نے تو روح تک کو گھائل کر کے رکھ دیا۔ اس واقعے کا ذکر بھی روح فرسا ہے۔ بربریت کی ایسی مثال ہے جسے دہشت گردی کہنا واقعے کی سنگینی سے مذاق کے مترادف ہے ۔ یہ اس سے بہت آگے کی کوئی چیز ہے۔ پھر ایک ایسے دن جب پہلے ہی گھائل روح پر ان گنت زخم تھے ۔ وہ بھی اپنوں کے لگائے ہوئے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کا سانحہ کیا کم تھا کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے الم ناک سانحہ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس سے بھی بڑا ظلم یہ کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہی نہیں چاہتے ، ہمیںکوئی فکربھی نہیں ہے ۔ آخر ہم جا کدھر رہے ہیں؟ دوسری طرف ایسے مواقعوں پر ہم مذہب کی عینک سے ہر چیز دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دکھ تکلیف آئے تو کبھی اسے اللہ کا عذاب گردانتے ہیں تو کبھی اللہ کی طرف سے آزمائش سمجھتے ہیں مگر کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اس میں ہماری اپنی نالائقیوں کا کتنا عمل دخل ہے؟ ہم محنت کی بجائے دعاؤں پر تکیہ کرنے والے لوگ ہیں۔ جانور بھی اپنی غلطی نہیں دہراتا اور ہم اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے بھی غلطیوں سے سبق سیکھنا تو دور کی بات غلطی دہرانے سے بھی نہیں چونکتے۔ سقوط ڈھاکہ کو ہی لیجیے ، طالع آزما سیاستدانوں کی غلطیوں کا ذکر کرنے کی بجائے ہم اسے ہندوستان کے کھاتے میں ڈال کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں۔ صرف ایک سوال کبھی اپنے آپ سے پوچھ کر دیکھیے کہ کیا ہم نے بنگالیوں کو ان کا حق دیا؟ پہلے دن سے ہی ہم نے نفرت کے بیج بوئے۔ دشمن تو دشمن ہے وہ کیسے موقع ضائع کر سکتا ہے۔ ہم نے جب انہیں دھتکار دیا تو انہیں کہیں تو داد رسی کے لیے فریادی ہونا ہی تھا۔ کیا اس سوال کا جواب بھی کسی کے پاس ہے کہ ان پر وہ زبان لاگو کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جو ان کی تھی ہی نہیں۔پھر 70ء کے انتخاب کے بعد عوامی لیگ کے اکثریت کے باوجود اقتدار کی منتقلی میں کیا امر مانع تھا؟ اسے ہوسِ اقتدار کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ بیرونی سازشیں تو ہونا ہی تھیں مگر ان میں آلہ کار کون بنا؟میر جعفر و میر صادق ہم میں سے ہی تھے۔ہم گمراہ ہو کر سارا الزام شیطان پر لگانے کے عادی ہیں۔ مگر اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ اللہ نے شیطان سے فرمایا تھاکہ’’ میرے نیک بندے تیرے چنگل میں نہیں آئیں گے‘‘، ہم ہیں کہ پیرویٔ شیطان میں فخرمحسوس کرتے ہیں۔ دودھ میںپانی شیطان ملا دیتا ہے؟ اور تو اور دوائیوں میں ملاوٹ کاسبق ہمیں کون پڑھاتا ہے؟کوئی ایک شخص بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ ٹیکس یا زکوٰۃ پوری ایمانداری سے دیتا ہے؟دوسری طرف تخلیقِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمارا ازلی دشمن شیطان کی طرح ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہے۔ اسے پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ نئی سازش نہ کرے۔اس بات پر سارا غصہ نکالا جا تا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو دو لخت کرنے کی سازش کی۔ یہاںہم اپنی کرتوتوں کو بھول جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے گناہ ہم خود کرتے ہیں اور الزام شیطان پر لگاتے ہیں ۔ کیا ہم اندھے، گونگے اور بہرے ہیں؟(جی ہاں بالکل ہیں) کیا ہمیں یہ احساس نہیں کہ ہمارا دشمن ہمیں کہاں کہاں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کر تا ہے یا کرے گا؟ پاکستان کی پوری تاریخ ہماری انہی نالائقیوں سے عبارت ہے۔ شراکتِ اقتدار کا کوئی فارمولا نہ ہونے کے سبب ایک حصے کو اقتدار سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش(بلکہ سازش) کی گئی۔ بنگالیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی تمام کوششیں بارآور ہوئیں اور نفرت کے بوئے ہوئے بیج تناور درخت بن گئے ۔ ملک کے دو لخت ہونے کے باوجود ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔افغانستان میں امریکی جنگ کا حصہ بن کر ہم نے انفرادی طور پر تو بہت کچھ کمایا ہو سکتا ہے مگروطن عزیز کے نقصان کا کبھی اندازہ ہی نہیں کیا۔آج بڑے رقت امیز لہجے میں رونا روتے ہیں کہ ہمارے80ہزارفوجی افسر جوان، سپاہی اور عام معصوم شہری شہید ہوئے۔ مگر یہ کبھی سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ ہم پر جنگ مسلط کیوں کی گئی؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا کی جنگ کا حصہ بننے پر ہی ہمیں دہشت گردی کا تحفہ ملا؟ کیا ا س حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ امریکا نے دنیا بھر کا امن تباہ کرنے کیلیے ’’بلیک واٹر‘‘ کو استعمال کیا؟ جو نام بدل کر ہمارے یہاں دہشت گردی کی ذمہ دار ہے۔ کلبھوشن کیا پکنک منانے پاکستان آیاتھا؟اپریشن جبرالٹر اور جہادی تنظیموںکی سرپرستی کا تو ذکر کرنا ہی فضول ہے۔ جو قوم قائد اعظم کے بعد اپنی اہل قیادت کے انتخاب میں اب تک ناکام و نامراد ہے اس کو ایسے سانحات کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا