قومی اسمبلی : منی بجٹ ، سٹیٹ بنک خود مختاری آر ڈ نینس کیخلاف اپوزیشن کا احتجاج ، واک آئوٹ
اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے چھ آرڈیننس توسیع کے لئے ایجنڈے پر رکھنے اور کئی سوالوں کے جوابات نہ ملنے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کردیا اور کورم کی نشاندہی بھی کردی۔ حکومت کورم پورا کرنے میں ناکام رہی جس کے باعث سپیکر نے اجلاس کی کارروائی جمعہ تک ملتوی کردی۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے دوران سپیکر نے پینل آف چیئرپرسن کے ارکان کا اعلان کیا۔ نوید قمر نے کہا کہ وقفہ سوالات کا آپ حال دیکھیں۔ لائن سے سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے، گیس کی کمی پر حکومت بے حسی سے بیٹھی ہے۔ حکومت کے اپنے ممبران اب یہ مسئلہ اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ نوید قمر نے اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمنٹ کی تضحیک ہو رہی ہے کہ آٹھ آٹھ آرڈیننس ایک دن میں توسیع کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے یہ پارلیمنٹ کوئی کام نہیں کر رہی۔ یہ پارلیمنٹ صرف اور صرف حکومت کی جو قانون سازی آرڈیننس کے ذریعے کی ہوئی ہیں ان کی توسیع کے لئے بیٹھی ہوئی ہے۔ ہم اس قسم کی چیز کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہم اس قسم کی گورننس کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ہم اس کے احتجاج میں واک آئوٹ بھی کرتے ہیں اور کورم کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے ایوان سے واک آئوٹ کردیا۔ سپیکر نے گنتی کرائی جس کے بعد اجلاس کی کارروائی جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔ تحریری جواب میں وزارت داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ سال 2011میں منعقدہ سالانہ عمومی اجلاسوں کے فیصلے کی روشنی میں سینٹ سیکرٹریٹ ایمپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کی قریباً 441ممبرشپس منسوخ کی گئیں۔ اس وقت 1351افراد کے پاس کارآمد سفارتی (سرخ) پاسپورٹ ہیں۔ تائیوان کے ساتھ کوئی لیبر معاہدہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان اور اٹلی کے مابین لیبر برآمدی معاہدہ پر مفاہمت کی یادداشت زیر عمل ہے۔
اسلام آباد (خبر نگار) سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)‘ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدوں سے پارلیمان اور عوام کو تاریکی میں رکھا جارہا ہے۔ منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری کے قانون کا پارلیمان میں مقابلہ کریں گے۔ سینٹ میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ افغان مسئلہ پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے۔ پارلیمنٹ سے باہر معاہدہ ہو گا تو وہ اپوزیشن کو قابل قبول نہیں ہوں گے۔ ارکان پارلیمنٹ کے بنک اکائونٹ کے لیے سخت شرائط پر معاملہ خزانہ کمیٹی کو بھیجتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک کو کمیٹی میں طلب کرنے کی ہدایت کردی۔ سینیٹ کا اجلاس جمعہ تک ملتوی کردیا گیا۔ سینٹ کا اجلاس گذشتہ روز چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ ایجنڈا مکمل ہونے کے بعد سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے عوامی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ ہوا کئی دس دن گزر گئے مگر تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ ہوا تب بھی پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کہا گیا آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ اس کے بعد گیس، بجلی اور تیل میں اضافہ ہوا‘ مہنگائی ہوئی مگر عوام کو اس حوالے سے نہیں بتایا گیا۔ سٹیٹ بنک کی خود مختاری کے لیے قانون میں ترمیم کی جارہی ہے۔ یہ سب سے خطرناک بات ہے۔ جو ڈاکومنٹ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیا ہے اس سے سٹیٹ بنک پاکستان کے دائرہ اختیار سے باہر نکل جائے گا اور وہ صرف آئی ایم ایف کو جواب دہ ہوگا۔ ہم منی بجٹ اور سٹیٹ بنک کے خود مختاری کے بل کا پارلیمان میں مقابلہ کریں گے۔ قائد ایوان سینٹ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ منی بجٹ پہلے کابینہ میں آتا ہے اور وہاں پر منظوری کے بعد وہ ایوان میں لایا جاتا ہے۔ جب پارلیمنٹ سیشن ہوں تو آرڈیننس نہیں لایا جاسکتا ہے۔ ٹھوس بنیاد پر بات کی جائے۔ سٹیٹ بنک کے حوالے جب قانون آجائے تو بات ہوسکتی ہے‘ مفروضوں پر بات نہ کی جائے۔ یہ مناسب نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف معاہدے کے باوجود حکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ کم ازکم بوجھ عوام پر پڑے۔ سابقہ حکومتوں نے ملک کو جن قرضوں کی دلدل میں دھکیلا وہ سب کے سامنے ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے پانچ سالوں میں 55ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے۔ ہم تین سال کے اندر 29ارب ڈالر قرض واپس کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف نے اس سال 12.2ارب ڈالر قرض واپس کرنا ہے اور اگلے سال قرض کے مزید 12.5ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ اس سب کے بعد اب سوال تو آپ سے کرنا ہے‘ آپ نے یہ قرضے لیے تھے۔ سینیٹر بہرمند تنگی نے کہا کہ چین سے 6ہزار میڈیکل طالب علم پاکستان میں ہیں اور وہ آن لائن کلاس لے رہے ہیں۔ آن لائن کلاس کو پی ایم سی نہیں مانتا ہے۔ حکومت چین سے بات کرے کہ ان طلبہ کو ویزا جاری کیا جائے۔ چیئرمین سینٹ نے کہاکہ فارن آفس سے یہ معاملہ اٹھائیں گے۔