سپاری ، ممنوعہ غذاکی کھلے عام فروخت پر مزید سخت اقدامات کا اعلان
لاہور ( خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے باوجود متعدد وزراء اپنے بزنس کا جواب دینے کیلئے ایوان میں نہ آئے۔ اپوزیشن نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایوان میں آنے کا مطالبہ کر دیا۔ راجہ بشارت نے سپاری اور ممنوعہ غذا کی کھلے عام فروخت پر مزید سخت اقدامات کا اعلان کر دیا۔ پنجاب اسمبلی اکا اجلاس روایتی دو گھنٹے 5منٹ کی تاخیر سے پینل آف چیئرمین میاں محمد شفیع کی صدارت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں محکمہ خوراک کے متعلقہ سوالوں کے جوابات صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے دئیے۔ لیگی رکن سمیع اللہ خان نے جواب تاخیر سے آنے پر محکموں پر تنقید کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایوان میں آکر محکموں کی کارکردگی بتانے کا کہہ دیا۔ محکموں کے جوابات ڈیڑھ سے دو سال تاخیر سے دئیے جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ ایوان میں کھڑے ہوکر محکموں کی کارکردگی کا جواب دیں، جس کے جواب میں پینل آف چیئر مین میاں محمد شفیع نے کہا کہ کوئی سرکاری رقم ہڑپ نہیں کر سکتا۔ کرشنگ شوگر پر تین روپے حکومت کو دئیے جاتے ہیں جو ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر خرچ ہوتا ہے جس کا آڈٹ بھی ہوتاہے۔ وقفہ سوالات کے دوران مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی چوہدری اختر علی نے ضمنی سوال میں کہا کہ سبسڈی ملز کو پنجاب دیتا ہے یا وفاق اس کا جواب دیا جائے۔ اگر شوگر ملز کو پنجاب سبسڈی دیتا ہو تو جواب کیوں نہیں آیا۔ فوڈ اتھارٹی جب سے بنی ہے مضر صحت اشیاء فروخت کرنے والوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا ہے، اگنور کیا جا رہا ہے۔ منوں ٹن مضر صحت دودھ کھلے عام شمالی لاہور میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ جس کے جواب میں وزیر قانون راجہ بشارت نے سوالوں کے جواب میں کہا کہ محکمہ خوراک مضر صحت دودھ فروخت کرنے والوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کر رہا ہے۔ نشاندی پر شمالی لاہور میں بھی بھرپور آپریشن کیا جائے گا۔ تحریک التوائے کار کا جواب دیتے ہوئے وزیر بلدیات میاں محمود الرشید نے کہا کہ لاہور کی بڑھتی آبادی پر قابو پانے کیلئے غیر قانونی آبادیوں پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شہر خاموشاں اتھارٹی میں نئی بھرتی کیلئے منظوری لے لی گئی ہے، ایک ماہ میں شہر خاموشاں اتھارٹی سے بڑے شہروں میں قبرستانوں جیسے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اجلاس کے دوران عبد اللہ وڑائچ اور سمیع اللہ خان کی وزراء کی ایوان میں عدم حاضری پر حکومت پر تنقید، پینل آف چئیرمین نے پچاس فیصد وزراء کی موجودگی کی تصدیق کر دی، تاہم سمیع اللہ خان نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے سخت الفاظ میں کل کہا تھا جن وزراء نے اپنے بزنس جوابات دینے ہیں وہ لازمی آئیں، ڈپٹی سپیکر کی سخت وارننگ پر وزیر صحت یاسمین راشد، وزیر ہائر ایجوکیشن یاسر ہمایوں اور وزیر لوکل گورنمنٹ میاں محمود الرشید ہی آئے، وارننگ کے باوجود ہائوسنگ کے وزیر، وزیر تعلٰیم مراد راس، محکمہ ماحولیات، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور محکمہ اوقاف کے وزراء ایوان میں نہیں آئے۔ صوبائی وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی نے کہا کہ کسان اب جدید ٹیکنالوجی سے اپنی فصل بڑھا سکتے ہیں، کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی پر مبنی مشینری پر پچاس سے ساٹھ فیصد سبسڈی دی گئی، صوبے کی کل پیداوار کا 65فیصد ایکسپورٹ کاٹن سے ہوتی ہے، رواں سال کاٹن پر سپورٹ پرائس 5ہزار 40روپے فی کلو دی گئی۔ حکومت نے زراعت کے نان ڈویلپمنٹ بجٹ کیلئے رقم بڑھا کر 31ارب روپے کردی ہے، کسانوں کو سبسڈی دینے کیلئے کسان کارڈ دئیے جائیں گے، کاشتکاروںکو سبسڈی دینے کیلئے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن سے پیسے دیں گے تاکہ پیسے سیدھے کسان کے پاس جائیں۔ اجلاس میں ہاکی کے کھیل کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھانے کے مطالبے کی آئوٹ آف ٹرن قرارداد متفہ طور پر منظور کر لی۔ قرارداد حکومتی رکن اسمبلی عظمی کاردار نے ایوان میں پیش کی گئی۔ اجلاس جمعہ مورخہ 24 دسمبر صبح نو بجے تک ملتوی کردیا گیا۔