• news
  • image

اب عوام گھبر ا نہیںرہے کنفیوژ ہورہے ہیں

وطن عزیز پاکستان میںہر حکومت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کی معیشت کو بہتر ی کی طرف لیجانے کے اقدامات کئے جائیں مگر حکومتی پراپیگنڈہ ٹیم کو یہ ڈیوٹی سونپ دی جاتی ہے کہ ’’جوانوں نکل پڑو اور جو حکومت نہ کرسکی ہے عوام کو بتائو کہ وہ ہوگیا ہے انکی زندگیاں سنور نے والی ہیں ، دودھ کی نہریںبہنے والی ہیں وغیرہ وغیرہ ‘‘ جب انتخابات ہوتے ہیں تو حکومت میں آنے کی تگ و دو کرنیوالے سیاست دان عوام کو سبز ترین باغ دکھاتے ہیں ، اور تعلیم سے نابلد عوام اپنا کاروبار چھوڑ کر اس سیاستدان کے پیچھے چل پٹرتے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد جب روائتی بیانات آنا شروع ہوتے ہیں کہ ’’خزانہ خالی ہے ، گزشتہ حکومت سب کھا گئی ، قرضہ بہت ہے وغیرہ وغیرہ تو معصوم عوام کے سنہرے خواب چکنا چور ہوجاتے ہیں، پہلے تو بات تھی کی تعلیم سے نابلد عوام ہے جنکا مذاق اڑاتے ہوئے کچھ مورثی سیاست دان یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ تو ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دیتے ہیں ‘‘مگر 2018 ء میں بننے والی حکومت کے متعلق یہ کہا گیا تھا اسکے ووٹر بھی بہت تعلیم یافتہ ہیں، اسد عمر جیسے معیشت دان ساتھ ہیں، معیشت کی بہتری کا تو کوئی مسئلہ نہیں ، مگر حکومت آنے کے ایک سال کے اندر ہی حکومت کو خود آٹے دال کا بھائو کا علم ہوا۔ بہر حال پی ٹی آئی کے عظیم معیشت دان کو حکومت نے خود ہی پہلے ہی سال میں ’’کھڈے لائن ‘‘ لگا دیا اور پھر تجربات شروع ہوگئے اور حکومت کو گزشتہ حکومتوں کا معاشی طور پر بیڑہ غرق کرنیوالے صاحبان کی مدد لینا پڑی جو آئی ایم ایف کے ’’اسٹاک کریکٹر ہیں ‘‘ جو ملک ان سے قرض لیتا ہے وہاں آئی ایم ایف اپنے سرمایہ کی واپسی کو محفوظ کرنے کیلئے یہ ’’دم دار ستارے ‘‘بھیج دیتا ہے جو اپنا کام کردیتے ہیں ، اور اب تو اسٹیٹ بنک بھی تقریبا آئی ایم ایف کے حوالے ہے جو ایک بہت ہی مایوس کن ، اور شرمندگی سے بھر پور اقدام ہے کہ کسی ملک کے مرکزی بنک پر قابض خود حکومت نہیںبلکہ اغیار کے پاس اسکا انتظام ہے ، آج تک ہر سیاسی جماعت نے صرف اور صرف اسلا م آباد پر قابض ہونے کو ترجیح دی کبھی حکومت میںآنے سے قبل ملک کے مسائل خاص طور معیشت کے حوالے سے کوئی ’’ہوم ورک ‘‘کیا ہی نہیں۔یہ بات بھی درست ہے ہر آنیوالی حکومت کچھ پس پردہ معاملات کی وجہ سے از خود اپنی جماعت کی حکومت نہیںبنا سکتی بلکہ اسے ’’انتظام ‘‘ کے تحت حکومت بنانے پر مجبور کیا جاتاہے اگر حکومت میں آنیوالے نئے ہیں جیسے موجودہ وزیر اعظم تو انتطام کے تحت آنیوالے اتحادی کوئی قدم نہیں اٹھا پاتے ، بہر حال یہ ہمارا المیہ ہے انہیں حالات میں زندگی اور حکومت گزارنا پڑیگی۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے اگر حب الوطنی کا کوئی عنصر ہے تو معاملات کو بہتری طرف لیکر جائے مگریہاں بھی مسئلہ ہے کہ خود حکومت کے اندار بیانات میں ، پالیسی میںکوئی ہم آہنگی نہیں ، وزیر اعظم کی ہدائت کچھ اور ہوتی ہیں ترجمان کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ عوام کواور دنیا کو ہنسی اڑانے کا موقع ملتا ہے۔اب ان تاریخی بیانات میں عوام کس کی بات کو صحیح کہیں عوام کے پاس ان بیانات کے بعد مایوسی اور کنفیوژ ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ملکی تاریخ میں مہنگائی کبھی اس شرح سے نہیں بڑھی جتنی اب بڑھی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کبھی اتنی سست نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ بیروزگاری میں کبھی اس قدر اضافہ نہیں ہوا تھا، جتنا اب ہے۔ معاشی پالیسیوں میں ایسی کنفیوژن اور لاابالی پن قبل ازیں کبھی نہیں دیکھا تھا، جتنا آج دیکھنے کو مل رہا ہے اور معیشت کی خرابی کے بارے میں معاشی ماہرین کا اجتماع ایسے کبھی نہیںدیکھنے میں نہیں آیاجتنا ان تین سالوں میں نظر آیا اسد عمر نے آغاز کیا، پھر بیرون ملک سے حفیظ شیخ بلائے گئے، درمیان میں حماداظہر نے بھی زورآزمائی کی اور اب زرداری صاحب کے دور کے وزیرخزانہ شوکت ترین زور آزمائی کررہے ہیں لیکن بات بننے کی بجائے بگڑتی جارہی ہے۔ ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہوتی رہی ہے لیکن یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہواکہ سٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا بندہ مقرر کیا گیا ہے تاریخ یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ صرف حکومت کے سیاسی مخالفین ہی معیشت کی تباہی پر تنقید کررہے ہیں بلکہ ڈاکٹر فرخ سلیم جیسے نواز شریف کے نقاد اور معیشت کیلئے عمران خان حکومت کے سابق ترجمان بھی کہہ رہے ہیں کہ معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے۔ یہ بھی افسوسناک واقع ہے کہ شبر زیدی جنہیں حکومت سے قربت کی بناء پر ایف بی آر کا چیئرمین بنا یا تھاوہ بھی لوٹ مار کا منظر دیکھ کر حکومت سے کنارہ کش ہوگئے اور فرما رہے ہیں رہے ہیں کہ پاکستان معاشی دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ بھاری معاوضوں کے تحت ان لوگو ں نے پاکستان کے خزانے کومثبت راستہ دکھانے کے بجائے سیاست دانوںکو کرپٹ، کام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگا کر چل پڑے ، سیاسی جماعت اپنے ماہرین نہ ہوںتو ’’مانگے تانگے ‘‘ کے ماہرین کیا مدد کرسکتے ہیں۔ عوام کی تعلیم، صحت اور روزگار کے حوالے سے پی ٹی آئی سے وابستہ توقعات بھی مایوسی میں تبدیل ہونے لگیں اور بے روزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن