نئی تنظیم سازی:غیر عوامی نمائندوںکی مدد سے پارٹی کو عوامی بنانے کا خواب
تجزیہ: محمد اکرم چودھری
پی ٹی آئی کی تنظیم سازی، غیر عوامی نمائندوں کی مدد سے پارٹی کو عوامی جماعت بنانے کا خواب ہے۔ نئے تنظیمی عہدیداروں کا اعلان وزیراعظم عمران خان کی اپنی ہی سوچ کے خلاف ہے۔ نئے عہدیداروں کے اعلان کے بعد سوال ہو رہا ہے کہ ایسے افراد جو ووٹرز سے ملتے ہی نہیں، ایسے عہدیدار جنہوں نے عام آدمی سے ملنے کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں یا مخدوم خسرو بختیار جیسے عہدیدار جو سال کے بارہ مہینوں میں سے ساڑھے گیارہ لاہور یا اسلام آباد میں گذارتے ہیں انہیں جنوبی پنجاب میں ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں، کیا وہ پارٹی کارکنوں کو فون پر متحرک کرنے کی کوشش کریں گے یا پھر کسی ملازم کے ذریعے جنوبی پنجاب میں جماعت کو چلائیں گے۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے ناکام رہنے والے اسد عمر بھی عوامی شخصیت نہیں ہیں، شفقت محمود کی طرح وہ بھی "بابو" سیاست دان ہیں۔ این سی او سی میں انہوں نے اچھا کام کیا لیکن اس عوامی رابطے کی مہم میں وہ کامیاب ہو سکیں گے یہ سوالیہ نشان ہے۔ گھر کے دروازے بند کر کے کسی بھی سیاسی جماعت کو مقبول عام اور عام آدمی کی جماعت نہیں بنایا جا سکتا۔ عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرنا ہو تو کچن کے دروازے اور گھر کے راستے چودھری برادران کی طرح کھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ جہاں تک تعلق پرویز خٹک کا ہے انہیں وزیراعلی بنانے کے راستے میں خود وزیراعظم عمران خان رکاوٹ تھے حالانکہ پرویز خٹک ناصرف وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کامیاب رہے بلکہ جماعت کو بھی مضبوط بنایا۔ ان کی بہتر پالیسیوں کی وجہ سے تحریکِ انصاف خیبرپختونخوا میں مسلسل دوسری مرتبہ حکومت بنانے والی پہلی سیاسی جماعت بنی۔ اگر پرویز خٹک وزیر اعلیٰ بننے کے اہل نہیں تھے وہ صوبے میں جماعت کی سربراہی کے اہل کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا انتخاب بہر حال کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ مخدوم خسرو بختیار کئی سیاسی جماعتوں کے چکر لگا چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے ساتھ بھی مختلف وزارتوں میں بھی ناکام رہے انہیں جنوبی پنجاب کی ذمہ داری دی گئی ہے کیا ضمانت ہے کہ پی ٹی آئی ان کی آخری جماعت ہے۔ کیا ایسے غیر عوامی اور حلقوں سے دور رہنے والے افراد کسی بھی جماعت کو عوامی سطح پر متحرک اور فعال کر سکتے ہیں۔