پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح زیادہ پا ئی جاتی ہے ، ڈاکٹر افتخار عالم
اسلام آباد ( نوائے وقت رپو رٹ ) میری بہن ایمن چھاتی کے کینسر سے لڑتے لڑتے تین سال علاج ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو چھوڑ کر دنیا سے گئی ۔یہ بات بہاول پور سے تعلق رکھنے والی ماجدہ نوشین نے دکھ بھرے لہجے میں بتائی اور یہ کہانی بہاولپور کے بیشتر گھروں کی ہے۔پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح تمام قسم کے کینسر سے زیادہ پائی جاتی ہے جو کہ پنک ربن مہم کی رپورٹ کے مطابق 5 .38 فیصد ہے۔ ہمارے ملک میں چھاتی کے کینسر کی شرح ایشیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے ۔ تقریبا دس ملین خواتین اپنی زندگی میں چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کے خطرے میں ہیں یعنی ہر نو میں سے ایک عورت چھاتی کے کینسر کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہے اور سالانہ تقریبا 40 ہزار خواتین چھاتی کے کینسر سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں ۔ اس بیماری سے مریضہ کے خاندان کو بہت زیادہ تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ اگر آپ پہلی یا دوسری سطح پہ علاج نہیں کراتے تو بعد میں بہت زیادہ پیسہ بھی لگ جاتا ہے اور زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اس کے لئے آگاہی مہم کا دائرہ کار بڑھایا جائے ۔ بہاول پور انسٹیٹیوٹ آف نیوکلئیر میڈیسن اینڈ انکالوجی(بینو )کے ڈائریکٹر ڈاکٹر افتخار عالم کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس تقریبا بہاول پور ، میلسی ،صادق آباد اور گھوٹکی تک سالانہ تقریبا 350 خواتین ایسی آتی ہیں جو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوتی ہیں اور ان میں سے50 فیصد خواتین صحت یاب ہوجاتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اٹامک انرجی کے تحت میڈیکل سینٹرز بنے ہوئے ہیں جس کے ذریعے آگاہی مہم چلاتے ہیں اس میں سیمینارز ڈویژن کی سطح پرمنعقد ہوتے ہیں ۔ہمارے پاس موبائل وین ہیں جو بہاول پور میں117 رورل ہیلتھ سنٹر پر جاکر الٹراسائونڈ کرتی ہیں اور آگاہی وشعور کے حوالے سے گرلز کالجز سطح پہ کام کرتی ہیں اور ہم نے اکتوبر کے مہینے میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں بھی جاکر وہاں پر 50 سٹوڈنٹس کے ٹیسٹ کیے جن میں سے 4 لڑکیاں کینسر کی مریض نکل آئیں اور یہ انتہائی تشویشناک صورتحال آگاہی نہ ہونے کے سبب بڑھ رہی ہے۔ڈائریکٹر ہیلتھ ایجوکیشن اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر محمود خان سے طالبات میں تعلیم کے ذریعے آگاہی بارے پوچھا گیا تو ان کا موقف تھا کہ اب یونیورسٹی میں لڑکیوں کی شرح لڑکوں سے بڑھ گئی ہے افسوس ہے کہ نوجوان لڑکیوں میں کیسز کی تعداد بھی زیادہ ہے ہم سیمینارز کیذریعیان بچیوں کو آگاہی دیتے ہیں اور پھریہ بچیاں گھر جاکے اپنی مائوں ، خالہ ، پھپو ،دادی اور نانی تک بھی معلومات پہنچاتی ہیں ۔اس حوالے سے پنک ربن کے سی ای او عمر آفتاب کہنا تھا کہ سرائیکی بیلٹ ( صادق آباد، رحیم یارخان، بہاولپور، میلسی، بہاولنگر، میانوالی ، ڈیرہ غازیخان ، مظفر گڑھ اور لیہ وغیرہ میں زیادہ تر مسئلہ آگاہی وشعور کا ہے کیونکہ یہ علاقہ پدرسری سوچ کا مالک ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پہ تشدد کیسز بھی زیادہ ہیں اور پہلاسنٹر تشدد کے خلاف مظفر گڑھ میں بنایا گیاہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں یہ رویہ ہے عام بیماری میں بھی ڈاکٹرز سے چیک اپ نہیں کرایا جاتا تو جب چھاتی کے کینسر کی بات آتی ہے تو وہاں وومن سیکچوئلٹی کاایشو بن کے اور زیادہ چیلنج بن جاتا ہے اس کے لیے بینو، نشتر میڈیکل ہسپتال اور مینار ( ملتان انسٹیٹوٹ آف نیوکلئیر میڈیسن اینڈ ریڈیو تھراپی ) کام کر رہے ہیں لیکن لوگ اس سے آگاہ ہی نہیں اور دوسرا جب خواتین کو خوف ہوتا ہے کہ جب وہ فیملی میں بتائیں گی اور ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا تو چھاتی کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے گااور ان کی خوبصورتی ختم کردی جائے گی لیکن وہ یہ نہیں جانتیں کہ اگر وقت پہ تشخیص ہوجائے تو علاج ممکن ہوجاتا ہیاور اگر دیر ہوجائے تو زندگی کھو دینے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پنک ربن آگاہی مہم نیشنل لیول پرپہنچ چکی ہے اس پر18 سال سے کام کر رہے ہیں پہلے 10 سال بہت مشکل تھے 2004 میں تو تمام ٹی وی چینلز نے بلیک آئوٹ کردیا تھا اور لاہور میں کالج کی پرنسپل نے طالبات سے بات کرنے سے سختی سے منع کردیا لیکن ہماری مسلسل محنت رنگ لائی اور اب چھاتی کے کینسر کی آگاہی وشعور کی مہم اکتوبر کے مہینے میں کئی اہم عمارات کے علاوہ صدر ہائوس کو پنک کرنا اور پی ٹی اے کے ساتھ رنگ ٹون کا معاہدہ کیا گیاکینسر کی وجوہات باریانھوں نے بتایا کہ یہ موروثی بھی ہوسکتا ہے اور دوسراضروری نہیں ہے کہ یہ چالیس سال سے زائد عمر میں ہو اب تو 15 سال تک کی چھوٹی بچیوں میں بھی چھاتی کا کینسر بڑھ رہا ہیاور تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ مرض بچوں کوں دودھ نہ پلانے کے سبب ہوتا ہے مگر اصل میں یہ کوئی وجہ نہیں ہے اسکی جو وجوہات بتائی جاتی ہیں اس میں مصنوعی ترقی اور آپ کا لائف سٹائل ہے کیونکہ میڈیکل ورزش کرنا ، متوازن اور صحت مند غذا کے علاوہ ذہنی صحت بہت اہم ہے۔ ہم نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ذمہ یہ لگایا ہے کہ چھاتی کے کینسر کے حوالے سے آگاہی دیں کیونکہ کینسر کے پھیلنے کی وجہ وقت پر تشخیص نہ ہونے کے علاوہ مختلف ہسپتالوں میں میموگرام کا جس کے ذریعے آپ چھاتی کا ایکسرے کرتے ہیں اس کا نہ ہونا بھی ہے۔جب اس حوالے سے تحریک انصاف کے حکومتی رہنما گزین عباسی سے بات کی گئی تو ان کا یہ کہنا تھا حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے پیرامیٹرز کے مطابق کام کیا جائے جس کے مطابق عالمی ادارہ صحت پاکستان میں صحت کے اداروں اور سٹاف کو تکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے ۔ اور ہسپتالوں میں آلات کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ عالمی اداروں کو صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے فنڈ لینے کی کوششیں کرتا ہے نیز ڈاکٹروں کو تربیتی ورکشاپ کے لئے باہر ممالک بھیجتے ہیں لیکن معاشرے میں بڑھتی ناانصافی صحت کو بھی کھائے جارہی ہیجب کہ سماجی کارکن صفیہ چشتی کے مطابق حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن اب پاکستان میں پدرسری سوچ کو بدلنا ہوگا اور عورت کی صحت خاندان کی صحت اور بقا ہے اس کیلئے آگاہی وشعور کے لئے صرف اکتوبر کے مہینے کے علاوہ پورا سال کام کرنا ہوگا اور حکومت کو میموگرام تحصیل سطح پر ہسپتالوں میں دینا چاہیں فری کیمپ اور سیمنارز یونین کونسل سطح پر منعقد کرائیں اورتعلیمی اداروں کے ذریعے یہ آگاہی مہم دیہات کے گھر گھر تک پہنچانا ہوگی اور ہمیں اپنی زندگی کے انداز کو بدلناہوگا تاکہ اس موذی مرض سے بچا جاسکے