• news
  • image

حکومت کے مزید مشکل سال

موجودہ حکومت کیلئے آنے والے سال بلکہ دن بھی خاصے مشکل دکھائی دے رہے ہیں یہ تو حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن ہی بھان تئی کا کنبہ ملی ہے جسے اپنے اختلافات سے ہی فرصت نہیں ہے بصورت دیگر صورت حال مزید دگرگوں ہوتی جبکہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات نے بھی انصافی حکومت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اس ساری صورتحال پر کپتان نہ صرف برہم ہے بلکہ ٹیم میں بھی پے در پے تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ پنجاب میں ہونے والے انتخابات کی خود نگرانی کرنے کا فیصلہ بھی وزیراعظم نے کر دیا ہے۔اب دیکھیں مہنگائی اور دیگر چیزوں کا نوٹس لینے کی طرح انتخابات کی خود نگرانی کرنے کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں سردست تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) ہی اپنے پرپرزے نکالتے دکھائی دے رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح چلے ہوئے کارتوسوں سے کام چلانے کی کوشش کی مگر وہ اس کے کوئی کام نہ آ سکے خلق خدا اور رائے عامہ اب بھی یہی کہتی ہے کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کیلئے حکومت کو موثر منصوبہ بندی کرنا چاہیے تھی۔ گزشتہ عرصے میں ہونے والے  بہت سے ضمنی الیکشن میں حکومت کی ناکامی بھی اس حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات اور اب خیبر پختونخواہ میں جہاں وزیروں مشیروں نے اپنوں میں ہی ریوڑیاں بانٹی ہیں کے نتائج حکمران جماعت کے لئے لمحہ فکریہ ہیں اسی طرح اگر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں بھی پہلے سے ریس میں دوڑنے والے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں اور اقربا پروری کا سلسلہ جاری رہتا ہے  تو صورتحال میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہو گی۔ حکومت کے آنے والے آخری دو سالوں میں سے ایک سال ہی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے بچتا ہے کیونکہ آخری سال تو انتخابات کی تیاری کا سال ہوتا ہے۔ مہنگائی کی لہر کو ابھی تک کنٹرول کرنے کیلئے کوئی مربوط حکمت عملی سامنے نہیں آئی جبکہ حکومت کا اپنا ووٹر بھی اس وقت ڈانواں ڈول نظر آتا ہے۔ بر طرف کئے جانے والے 16 ہزار سے زائد ملازمین عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی رو سے بحال ہو چکے ہیں جبکہ بیشتر  ابھی تک اداروں کی روایتی بے حسی کے کرب سے گذر رہے ہیں ان  بحال  ہونے والوں میں سے اکثر کی ہمدردیاں پی پی کے ساتھ ہیں کیونکہ پی پی کے دور میں ہی زیادہ  ملازمین کو ملازمتیں ملیں اور اب بھی ان کے وکلا نے ان کی قانونی امداد کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
ہمارے ہاں سیاست و حکومت میں آئے روز نت نئے تجربات کیے جاتے ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ اداروں کی بہتری کیلئے صحیح افراد کا انتخاب کیا جائے میرٹ اور انصاف پر محض زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی کیا جائے جبکہ تعلیم اور صحت کے بڑھتے مسائل اور گرتے ہوئے معیار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی بڑھتی رفتار کو بھی روکنے کی ضرورت ہے جس نوجوان طبقے نے موجودہ حکومت کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا ہے کم از کم ان کے لیے روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح میں شامل ہونا چاہیے۔ مناسب روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں لاقانونیت، تشدد، عدم برداشت منشیات اور چوری ڈکیتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے بیرون ممالک میں بھی افرادی قوت کی مانگ میں نہ صرف کمی ہوئی ہے بلکہ کئی پاکستانی بیرون ممالک سے وطن واپس آ کر مشکلات کا شکار ہیں۔
حکومت کی طرف سے صحت کارڈ کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا ہے لیکن یہ صرف اسی وقت کارآمد ثابت ہو گا جب اس کا استعمال بھی درست ہو گا اور صحت کے تمام مسائل کا اس میں حل  اور تمام بیماریوں  کا علاج بھی موجود ہو۔
حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنے اور گڈ گورننس کی مثال قائم کرتے ہوئے ہوشربا مہنگائی میں سے مصنوعی مہنگائی کو نکالنا ہو گا چاہے اس کے لیے سخت اقدامات کیوں نہ کرنا پڑیں۔
مسلم لیگ ن کے ایک عرصہ سے وطن سے باہر رہنے والے رہنما اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں بھی گرم ہیں ایسی صورتحال میں حکومت ایک بار پھر کسی گرداب میں پھنستی نظرآ سکتی ہے۔ سال 2021ء کا اختتام ہونے اور سال 2022ء کی آمد آمد ہے اور ہر آنے والا نیا سال نئی امیدوں اور امنگوں کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے۔ اس حوالے سے کئی جوتشی پنڈت اور پیش گوئی کرنے والے بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں ۔
ابھی بھی بہت سے لوگ چوروں، لٹیروں اور کرپشن زدہ سیاست دانوں سے ملک اور اپنا آپ بچانا چاہتے ہیں لیکن یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب عوام کی خیر خواہی کا دعوی کرنے والے عوامی مسائل کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام کے ساتھ کھڑے بھی نظر آئیں گے۔ نئے سال میں عوام کو کچھ ایسا نیا نظر بھی آئے کے وہ نئے سال کا استقبال پوری خوش دلی اور گرم جوشی کے ساتھ کریں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن