محترمہ بینظیر بھٹو کی یاد میں!!!!!!
مشرقی پاکستان کے حوالے تصویر کا دوسرا رخ آپ کے خدمت میں پیش کیا جا رہا تھا۔ آج بھی اس سلسلے کو جاری رکھا جاتا لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کی وجہ سے آج مشرقی پاکستان کے وہ حقائق جو آپ تک پہنچ نہیں سکے یا وہ حقائق جنہیں دنیا بھر کے میڈیا نے نظر انداز کیا اور ایک مختلف تصویر آپ تک پہنچائی اور اس حوالے سے اتنا جھوٹ بولا گیا کہ وہ جھوٹ ہی سچ لگتا ہے۔ بہرحال وہ چیزیں جو اصل حالت میں آپ تک نہیں پہنچ سکیں اس کا سلسلہ ماہ دسمبر میں یہاں شروع کیا گیا ہے اسے اختتام تک پہنچایا جائے گا۔ ابھی چند روز مزید آپ تک مشرقی پاکستان کے حوالے سے حقائق آپ کے سامنے رکھے جائیں گے لیکن آج کالم محترمہ بینظیر بھٹو کی یاد میں ہے۔ کچھ شک نہیں کہ مشرقی پاکستان میں بھی بھارت نے دہشت گردی کی تھی اور قیام پاکستان سے اب تک بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ آج ہم محترمہ بینظیر بھٹو کو یاد کر رہے ہیں تو یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی ایک مقبول عوامی لیڈر کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ کاش ہم محترمہ کو اس سے بہتر انداز میں یاد کرتے۔ ستائیس دسمبر کو جب وہ دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنیں وطن واپسی سے لے کر زندگی کے آخری سانس تک وہ پاکستان میں امن کے دشمنوں کا سب سے بڑا ہدف رہیں۔ آخر کار دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوا۔ پاکستان کی ایک مقبول عوامی لیڈر، جمہوریت کی مضبوط آواز اور بیرونی دنیا میں پاکستان کا روشن چہرہ سمجھی جانے والی محترمہ ہم سے جدا ہو گئیں۔
دو ہزار سات میں لیاقت باغ جلسے سے نکلتے ہوئے انہوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ محترمہ کو گئے برسوں گذر چکے لیکن آج بھی لوگ ان کے نام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی سال میں ایک مرتبہ اجتماعی طور پر انہیں برسی کے موقع پر یاد کرتی ہے۔ برسی کے موقع پر ملک بھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین و کارکنان گڑھی خدا بخش جمع ہوتے ہیں اور اپنی محبوب قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ برسوں گذرنے کے باوجود بینظیر بھٹو کی برسی پر جمع ہونے والے کارکنوں کی محبت میں کمی نہیں آئی۔ بینظیر بھٹو نے نہ ان کا کوئی کام کرنا ہے، نہ وہ انہیں دیکھنے کے قابل ہیں، نہ وہ کسی کو نوکری دلا سکتی ہیں، نہ وہ کسی کو سزا سے بچا سکتی ہیں، نہ کسی کو قرض، نہ کسی کو ٹکٹ دے سکتی ہیں۔ اس کے باوجود ہر سال ہزاروں کی تعداد میں عاشقان بھٹو گڑھی خدا بخش جمع ہوتے ہیں۔ یہ بینظیر کی طاقت اور زندگی بھر کی کمائی، ان کی سیاسی جدوجہد کا انعام، جاگیر اور وراثت ہے۔
کچھ شک نہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت متحد ہو کر بھی ایک جلسہ کرنے کی کوشش کرے تو بینظیر کی برسی پر جمع ہونے والے جیالوں جتنی تعداد جمع نہیں کر سکتی۔ یہ ووٹرز کی محبت، جذبے اور لگائو کا فرق ہے۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ کارکنوں کی محبت آج بھی برقرار ہے۔ بینظیر کی برسی ہر سیاست دان کے لیے ایک سبق ہے۔ اس اجتماع کو ٹیلیویژن پر دیکھنے والوں کے لیے سبق بھی ہے۔ سیاستدانوں کو یہ سمجھ آنی چاہیے کہ اگر وہ عوام میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو لوگوں کے دلوں اور دماغوں پر حکومت کریں۔ ووٹرز کے ساتھ بیٹھیں انہیں نام لے کر پکاریں۔ ووٹرز کی باتیں سنیں، انہیں گلے لگائیں۔ یہ محبت،عقیدت گھر بیٹھے نہیں ملتی، ایسے لگاؤ کے لیے آرام، آسائش کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ بینظیر بھٹو ایک کمزور کارکن کے دل کی آواز تھیں۔
بینظیر بھٹو نے ہمیشہ اپنے کارکنان کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے عزت دی اور خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ بھرے مجمعے میں نظریاتی کارکنوں کو ان کا نام لے کر بلایا کرتی تھی۔آج سیاسی جماعتوں کا نظریہ ہی نہیں رہا تو نظریاتی کارکنوں کی کیا حیثیت ہے۔ دنوں میں سیاسی جماعتیں بدلی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت نچلی سطح پر اتنی منظم اور مقبول نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو کے جانے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ کاش کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین بینظیر بھٹو کی سیاسی فکر سے کچھ سبق حاصل کریں۔ عوامی سطح پر مقبولیت کی خواہش رکھنے والوں کو احساس ہو کہ سیاسی جماعتوں کی بنیاد نظریاتی کارکن ہوتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان بینظیر بھٹو کی برسی سے سبق حاصل کریں، بینظیر بھٹو کی زندگی سے کسی کی سیاسی تربیت ہو جائے اور کچھ نہیں تو کم از کم پاکستان پیپلز پارٹی والے ہی کچھ سیکھ لیں۔
بینظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کے فیصلوں اور ان کے طرز حکومت سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی پاکستان سے محبت پر شک نہیں کیا جا سکتا، وہ ایک محب وطن سیاست دان اور اس مٹی کے عشق میں مبتلا اور عوام سے بہت قریبی تعلق رکھتی تھیں۔ عوام کے دکھ درد کا احساس تھا وہ عوام کے مسائل حل کرنا اور عام آدمی کے دکھ درد کو بانٹنا جانتی تھیں۔ بینظیر بھٹو نے آرام دہ زندگی کے بجائے عوام میں رہنے کو ترجیح دی۔ وہ ایک بہادر خاتون تھیں موت سامنے دیکھ کر بیرون ملک رکنے کے بجائے وطن واپسی کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے عوام کے ساتھ زندگی گذارنے کا فیصلہ کیا۔بندوقیں اور بم دھماکے ان کے عزم میں لغزش پیدا نہ کر سکے۔ وہ جذباتی لگاؤ رکھنے والے منفرد ووٹرز سے بات کرتے کرتے سفر آخرت پر روانہ ہوئیں۔ وہ ڈرنے، بھاگنے کے بجائے میدان میں نکلنے کو ترجیح دیتی رہیں۔ آج بڑے بڑے لوگ ملک سے بھاگے ہوئے ہیں لیکن بینظیر بھٹو اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی بینظیر بھٹو کو بھلا نہیں پائے۔ کراچی سے خیبر، لاہور سے کوئٹہ تک لوگ محبت کے ساتھ کھڑے نظر آتے۔ بینظیر بھٹو وفاق کی بڑی علامت تھیں اور انہیں اس علامت کے طور ہی یاد رکھا جائے گا۔ کوئی سیاستدان اس مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور بینظیر بھٹو کے سیاسی وارثوں کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو بینظیر بھٹو کی طرح عوام سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانا ہو گا یہ تعلق ہی پیپلز پارٹی کی اصل طاقت ہے۔