• news

منی بجٹ: حکومت اپوزیشن میں زبردست گرما گرمی

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سٹیٹ بنک اور منی بجٹ بل کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آ گئے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس  آج طلب کیا گیا ہے جس میں منی بجٹ کی منظوری کے  ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے  ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی۔ بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین منی بجٹ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کریں  گے۔ ایوان کا اجلاس شام 4بجے بلایا گیا ہے۔ یہ دونوں  بلز آئی ایم ایف  کے قرضہ پروگرام کی شرائط میں شامل ہیں۔ ان  دونوں بلز کی منظوری 12جنوری سے قبل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔  آئی ایم ایف  بورڈ  کے اجلاس میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر جاری کرنے کی منظوری ہو گی۔ اس  سے قبل، کابینہ کے  دو اجلاسوں میں منی بجٹ بل کو جس کے ساتھ سٹیٹ بنک کی خود مختاری کا بل بھی ہے  منطور نہیں  کیا  جا سکا تھا۔ جبکہ منگل کے اجلاس میں اتحادی جماعتوں کے اعتراض کی وجہ سے بلز کو منظور نہیں کرایا جا سکا تھا۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ اب منی بجٹ  اور سٹیٹ بنک کا ترمیمی بل  کابینہ کی منظوری ملنے پر آج جمعرات کو قومی اسمبلی میںپیش کیا جائے گا۔ مجوزہ منی بل میں جی ایس ٹی  سیکٹر  کو  ہدف بنایا گیا ہے۔ بل کے ذریعے  پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی بڑھانے یا کم کرنے کا اختیار وزیراعظم کو دینے کی تجویز ہے۔ کاسمیٹکس، درآمدی خوراک پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ غیر ملکی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگ جائے گی، درآمد کیے جانے والے ڈراموں پر ایڈوانس ٹیکس عائد ہوگا۔ ترقیاتی بجٹ میں 200ارب روپے کی کٹوتی ہوگی، موبائل فون، سٹیشنری اور پیکڈ فوڈ آئٹمز پر ٹیکس چھوٹ ختم کیے جانے کا امکان ہے۔ 800سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور لگژری گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کی تجویز بھی ترمیمی بل کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج طلب کیا گیا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شریک ہوں گے۔ فنانس ترمیمی بل پر اعتماد میں لیا جائے گا۔ دوسری طرف پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن نے منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق بلوں کو ملک کیلئے تباہی کا نسخہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور قومی اسمبلی میں ان بلوں کی شدید مخالفت کرنے اور اس کا راستہ روکنے کا اعلان کردیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے اہم مشاورتی اجلاس میں منی بجٹ کا راستہ روکنے کی حکمت عملی طے کر لی اور کہا ہے کہ عمران نیازی نے معاشی خودمختاری کا سودا کردیا۔ منی بجٹ کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کا نیا عذاب مسلط ہوجائے گا۔ ملک پر تین سال میں تاریخ کے بدترین قرضے لادے جاچکے۔ شرح ترقی کا جنازہ نکل چکا ہے۔ منی بجٹ عوام کیخلاف معاشی دہشت گردی ہے جسے روکنا ہوگا۔ بدھ کو متحدہ اپوزیشن کا مشاورتی اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں اپوزیشن چیمبر میں  ہوا۔ اجلاس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی،  مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف، پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر، جمعیت علماء اسلام (ف) کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی قائد مولانا اسعد محمود سمیت اپوزیشن جماعتوں کے دیگر مرکزی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ اور اس سے منسلکہ حکومتی بلوں کا راستہ روکنے کے لئے اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر تفصیلی غور کیا گیا اور مشاورت سے لائحہ عمل طے کیا گیا۔ اجلاس میں منی بجٹ اور اس سے منسلکہ بلوں کے پیش ہونے کے موقع پر متحدہ اپوزیشن کے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے پہلو کا بھی جائزہ لیا گیا۔ حکومت نے بھی سٹیٹ  بنک اور منی بجٹ بل منظور کرانے کیلئے تیاریاں کر لیں۔ وزیراعظم عمران خان نے آج 3 اہم اجلاس طلب کر لئے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر پی ٹی آئی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس آج دن سوا 3 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا۔ وزیراعظم دن 12 بجے کابینہ کے خصوصی اجلاس کی صدارت کریں گے۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بھی آج 2 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا۔ وزیراعظم ملکی سیاسی و معاشی صورتحال سمیت منی بجٹ پر اعتماد میں لیں گے۔ متحدہ اپوزیشن نے منی بجٹ کیخلاف حکومتی اتحادیوں سے بھی ایوان میں مدد مانگ لی ہے۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم نے منی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ نئے ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ رہنما ایم کیو ایم صابر قائم خانی نے کہا ہے کہ ہم نے ابھی تک منی بجٹ کا بل نہیں دیکھا۔ ایم کیو ایم کا نظریہ ہے کہ سالانہ بجٹ کے بعد منی بجٹ نہیں آنا چاہئے۔ منی بجٹ لانے سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ حکومت ایسا اقدام نہ اٹھائے۔
اسلام آباد (نامہ نگار+ وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی میں منی بجٹ  کے معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن میں زبردست گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔ ارکان آمنے سامنے آ گئے۔ اپوزیشن حکومت پر برس پڑی۔ اپوزیشن نے منی بجٹ پیش کیے جانے پر حکومت کا بھرپور مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے حکومت کی جانب سے منی بجٹ بل پیش کرنے کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منی بل اور سٹیٹ بنک آف پاکستان بل کی منظوری کے لیے حکومت ایک مرتبہ پھر سہولت کاروں کے ذریعے ووٹ حاصل کرے گی۔ جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت پر قومی اتفاق تھا اور رہے گا، پاکستان کی ایٹمی طاقت پر کمپرومائز سے متعلق تمام وسوسے دل سے نکال دیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے منی بل اور ایس بی پی بل کے حوالے سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان پیپلزپارٹی رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے پوائنٹ آف آرڈر میں کہا کہ پارلیمان کے اندر اور باہر ہر کوئی اس رپورٹ پر تشویش کا شکار ہے کہ حکومت منی بجٹ یا منی بل لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ عوام پہلے ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ستائے ہوئے ہیں اور مشکلات کا شکار ہیں، منی بل عوام کے دکھوں میں مزید اضافہ کرے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن خواجہ آصف نے کہا کہ 16دسمبر 1971 کو سرحد پہ ہتھیار ڈالنے کا واقعہ دیکھا تھا اور ملک اس بحران سے باہر نکلا تھا لیکن اب ہم فنانس بل اور سٹیٹ بنک آف پاکستان بل کے ذریعے اپنی معاشی آزادی کھونے جارہے ہیں۔ یہ 1971 میں ہتھیار ڈالنے سے زیادہ خطرناک ہوگا، پاکستان دو لخت ہونے کے بعد بھی قائم رہا، منی بل سے معاشی خودمختاری سرنڈر کر رہے ہیں، سٹیٹ بنک آئی ایم ایف کی لوکل برانچ بن چکا ہے، گورنر سٹیٹ بنک وائسرائے بن چکے ہیں، پاکستان کو مالیاتی اداروں کی کالونی بنایا جارہا ہے، معاشی خودمختاری سرنڈر نہ کریں۔ ہم پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگلا ہدف ہمارے جوہری اثاثے ہوں گے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن زاہد اکرم درانی نے خیبرپی کے  کے وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد، ان کے بھائی اور بیٹے پر الزام عائد کیا کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران انہوں نے بکہ خیل کے پولنگ سٹیشن سے خواتین اساتذہ کو اغوا کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ ہے کہ  صوبائی وزیر کے خلاف ایف آئی آر درج کریں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کا موقع دیا تو راجا پرویز اشرف نے کورم کی نشان دہی کی اور ایوان سے واک آئوٹ کیا، جس پر شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کو پیغام دیا کہاکہ آپ میں ہمت ہے تو تھوڑی دیر لابی میں ہی رہیے گا۔ ڈپٹی سپیکر نے گنتی کروائی اور مطلوبہ تعداد پوری ہونے پر اجلاس جاری رکھا جبکہ اپوزیشن اراکین بھی ایوان میں واپس آئے اور کارروائی میں حصہ لیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج پاکستان جن مالی مشکلات کا شکار ہے اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ آج جو گردشی قرضہ ہے، جو مسائل ہیں اس پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے، گزشتہ تین سال میں میکرو اکنامک اعشاریہ نہیں بگڑے۔ وزیر موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل وزیرنے کہا کہ دھند اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اس دھند پر کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا، ساڑھے تین سال میں جو موسمیاتی تبدیلی میں کام ہوا اس کو دنیا مان رہی ہے۔ بعد ازاں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس آج شام چار بجے تک ملتوی کر دیا۔ دوسری طرف سینٹ کے اجلاس میں قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ  پیش نہ کرنے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے چیئرمین کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔ اجلاس میں  حکومت اور اپوزیشن میں گرما گرمی ہوئی۔ دونوں طرف سے شور شرابا کیا گیا۔  اپوزیشن رکن سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ جس قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دے دی گئی ہے وہ صرف ایک کاغذ ہوگا، ایک جانب کاغذ کا ٹکڑا ہوگا، دوسری جانب زمینی حقائق کچھ اور ہونگے۔ سلامتی پالیسی کا پتہ اخباروں سے چلا۔ یہ کہاں کی سکیورٹی پالیسی ہے جب سٹیٹ بنک گروی رکھا جا رہا ہے، کونسی سکیورٹی پالیسی جس میں آئی ایم ایف ملک کی اکانومی چلائے گا۔ اب یہ عالمی سامراج کو براہ راست جوابدہ ہوں گے پارلیمان کو نہیں۔ حکومت منی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ اتحادی تیار نہیں، قومی سلامتی سے جڑے معاملات زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ شیری رحمن کی تقریر کے دوران محسن عزیز نے شور شرابہ کیا اور کہا کہ تقریر نہ کریں اپنا مدعا سامنے رکھیں۔ جس پر شیری رحمن نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کا اعلان کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ کے اعلان کے بعد سینٹ میں قائد ایوان شہزاد وسیم نے کہا کہ اپوزیشن میں ہمت ہے تو جواب سن کر جائے۔ جس پر اپوزیشن ارکان ایوان میں رک گئے اور چیئرمین ڈائس کے سامنے احتجاج کرتے رہے۔ شہزاد وسیم نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی سلامتی پالیسی بنائی گئی، لیکن اپوزیشن نے ایوان کا بائیکاٹ کیا۔  اپوزیشن نیشنل سکیورٹی پالیسی کیلئے کمیٹی میں نہیں آئی،  اپوزیشن سے کہا تھا ڈرافٹ پر اپنی تجاویز دیں۔ شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اعتراض کیا کمیٹی میں وزیراعظم نہیں اس لیے آنا مناسب نہیں سمجھا، نیشنل سکیورٹی بریفنگ میں بھی وزیراعظم نہیں تھے مگر وہاں یہ سب بھاگے آئے کیونکہ وہاں وردی والے آئے تھے، جب الیکشن قریب آتا ہے تو وفاداریاں بدلتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے لیے ہوئے 55 ارب کے قرض ہمارے سر پر ہیں، 55 ارب میں سے 29 ارب کا قرض چکا دیا، 12 ارب رواں برس اور 12 ارب اگلے سال واپس کریں گے۔ اپوزیشن رکن سینیٹر مشتاق احمد نے ریلوے پیٹرولرز کو نکالے جانے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانا بنایا  اور کہا کہ ریاست مدینہ کی مثال دینے والے بتائیں کہ ان پٹرولرز کو کیوں نکالا گیا ہے، دوسری طرف گورنر ہائوس خیبر پی کے کے اخراجات میں پانچ کروڑ اضافہ کرنے کے ساتھ تین مساج والے بھرتی کئے گئے ہیں، حکومت مالشیوں کو نکالے۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے جواب میں کہا کہ مالیشی اور پالیشی سے بچ کر رہیں، یہ سیاسی بات کی اس کا کیا جواب دوں۔

ای پیپر-دی نیشن