مسلمانوں کی نسل کشی: مودی کا خاموش رہنا انتہا پسندوں کی حمایت
اسلام آباد (اے پی پی) معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھارت میں انتہا پسند ہندو رہنمائوں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے علی الاعلان مطالبوں کو شدید تنقیدکا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس انتہائی متعصبانہ رویئے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی دراصل اس کی حمایت ہے۔ مضمون کے مصنف رانا ایوب نے لکھا کہ نئی دہلی سے ڈیڑھ سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہر ہریدوار میں منعقدہ کانفرنس سے انتہا پسند ہندو رہنمائوں کے خطاب نے انہیں جرمن شاعر اور ڈرامہ نگار برٹولٹ بریخٹ کے اشعار یاد دلا دیئے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جب ہم نے پہلی بار سنا کہ وہاں ہمارے دوستوں کو قتل کیا جا رہا ہے تو ہم نے خوف کا اظہار کیا، پھر ذبح ہونے والوں کی تعداد ایک سو تک پہنچ گئی، جب ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گیا تو پھر اس پر خاموشی کی چادر تن گئی، جب گناہ بارش کی طرح برسنے لگیں تو کسی طرف سے ان کو روکنے کی صدا بلند نہیں ہوتی۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس میں انتہاپسند ہندو رہنمائوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا۔ بھارتی میڈیا نے اس خوفناک کانفرنس کی بھرپور کوریج کی۔ پولیس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ تفتیش کر رہی ہے لیکن اس نے بے حد سست روی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہندو رہنما اب اتنے دلیر ہوگئے ہیں کہ انہوں نے مذہبی پیشوائوں کے ایسے نیم فوجی دستے تشکیل دیئے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بھارت میں 22 کروڑ مسلم آبادی کے خلاف مسلح لڑائی کی قیادت کریں گے۔ مودی کے قریبی ساتھی، بی جے پی کے رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن تیجسوی سوریا بی نے ہندوستانی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب میں واپس لانے پر زور دیا تاہم بعد میں اپنے بیان سے مکر جانے کی کوشش کی۔ بھارت میں نسل کشی اور نسلی تطہیر کے مطالبات کئے جارہے ہیں، جہاں غیر متشدد مزاحمت کی عالمی علامت گاندھی کو قتل کرنے والے ہندو قوم پرستوں کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اکثریتی ہندو برادری اس کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت تک کرنے میں ناکام ہے۔گلی محلوں اور سڑکوں پر مسلمانوں پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں، کرسمس کی تقریبات پر حملے ہوتے ہیں، بھارتی حکومت نے انسانی حقوق کی علامت اور نوبل انعام یافتہ مدر ٹریسا کے خیراتی ادارہ کو بین الاقوامی عطیات وصول کرنے سے روک رکھا ہے، دائیں بازو کا قوم پرست نیوز چینل کا بااثر مالک سریش چوہانکے 19 دسمبر کو قومی راجدھانی میں ایک تقریب میں ہندوستان کو "ہندو قوم" بنانے کے لیے لوگوں پر "لڑو، مرو اور قتل کرو" پر زور دیتا ہے جب کہ کیمرے یہ سب کچھ دکھا رہے تھے اور پولیس دیکھ رہی تھی۔ بھارت میں قانون نافذ کرنے والے صحافیوں سے ٹویٹس پر اور تنقیدی عوامی شخصیات کے بیٹوں سے مبینہ طور پر چرس رکھنے کے بارے میں تفتیش کرنا پسند کرتے ہیں لیکن وہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے قتل عام کا مطالبہ کرنے والے جنونی ہندو رہنمائوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی کو ایک مسلمان کھلاڑی کا دفاع کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ ہے۔ واضح ہے کہ بھارت میں نفرت پھیلانے والے ہجوم کو اقلیتوں پر حملہ کرنے کی آزادی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کی یہ تمام اپیلیں ریاستی انتخابات کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔ کیا یہ وہ "جمہوریت" ہے جس کے بائیڈن اور دیگر حلیف چیمپئن بنتے ہیں۔ نریندر مودی کئی دہائیوں سے اس قسم کی نفرت کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بھارت میں اب کیا ہو رہا ہے لیکن ہم اس سے خوفزدہ ہیں جو مستقبل میں ہونے والا ہے۔