• news

5 جنوری کشمیریوں سے اقوام متحدہ کی وعدہ جراموشی کا دن

نجیب الغفور خان

 مسئلہ کشمیر کی صورت میں کروڑوں کشمیری آج تک اپنے  بنیادی حق سے محروم چلے آ رہے ہیں جبکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی خون کی ندیاں عبور کرکے آج بھی جاری و ساری ہے۔
 5 جنوری 1949کو اقوام متحدہ نے جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی ضمانت دی تھی،اس دن کو کشمیری اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو ادھورا وعدہ یاد دلانے کیلئے مناتے ہیں۔ 5 جنوری 1949 کو منظور کی جانے والی قرارداد میں اقوام متحدہ نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کیا جائے گا،کشمیر ی عوام اقوام متحدہ  کے چارٹر کے تحت حق خود ارادیت کے مطالبے پر قائم  ہیں۔ اس قرارداد پر اس مسئلہ کے اہم فریق پاکستان اور بھارت دونوں نے تائید کی تھی لیکن بعد میں بھارت نے مختلف بہانوں سے کشمیریوں کو ان کے پیدائشی حق، حق خودارادیت سے محروم رکھاہے۔ جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے سراسر منافی ہے۔
 اقوام متحدہ کی پوری تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ نے ہمیشہ مسلمانوں یا مسلمان ممالک کے حوالہ سے عدم مفاہمت اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ممالک اس ادارے کی کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں ۔حالانکہ کشمیریوں کے بعد جن قوموں نے حق خودارادیت کی جدوجہد شروع کی انہیں اقوام متحدہ کے زیر سایہ اپنی منزل مل گئی۔ مشرقی تیمور اس سلسلہ میں ایک اہم اور بڑی واضح مثال ہے۔ انڈونیشاایک اہم مسلم ملک ہے۔ اس کے ایک جزیرے میں مشرقی تیمور میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرایا گیا جس میں مشرقی تیمور کے عوام کو انڈونیشا کے ساتھ وابستہ رہنے یا آزاد ہونے کا حق دیا گیا۔ ریفرنڈم کے دوران اقوام متحدہ کی طرف سے سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور ریفرنڈم کا وہی نتیجہ نکلاجس کی امید مغربی طاقتوں کی خوشنودی تھا جبکہ کشمیر میں معاملہ اس کے بر عکس رہاہے ۔ 1949سے آج تک بھارت نے اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا بلکہ مختلف جیلوں اور بہانوں سے اس معاملے کو ٹالتا رہا۔
 اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے چشم پوشی ریاستی دہشت گردوں کی تکون بھارت،امریکہ اور اسرائیل کے دبائو کا بھیانک روپ ہے۔ قومی آزادی کی تحریکوں کے پس منظر میں دیکھیں تو بھی امریکہ اور اقوام متحدہ کا کردار واضح طور پر دوغلا نظر آتا ہے۔ وادی جموں و کشمیر جس کے باشندے اپنی قومی آزادی کیلئے بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بھارتی افواج کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے گزشتہ ستر برس سے نبردآزما ہیں ان کی زبوں حالی اور کسمپرسی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی حالانکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہونے کے باعث بھی لائق توجہ ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھی اس کا جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے اور اگر اس کو حل کرنے کا کوئی راستہ نکال لیا جائے تو اس سے ناصرف کشمیر کے کروڑوں باشندوں کی سیاسی و اقتصادی ترقی کے راستے کھل سکتے ہیں ۔بلکہ جنوبی ایشیاء میں ترقی کے نئے باب روشن ہو سکتے ہیں۔لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے بنیاد پرست بھارتی حکمران تیار ہیں نہ ہی سامراجی عزائم اور ایجنڈے والا امریکہ حتیٰ کہ عالمی برادری بھی اپنے مفادات کی سرحدوں سے آگے بڑھ کر دیکھنے کیلئے آمادہ نہیں ہے جبکہ اقوام متحدہ جس کی تشکیل دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کی جگہ اس لئے عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ اپنے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات کو طے کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر جدوجہد کرے وہ محض امریکی و یورپی مفادات  کی تابعدار بن چکی ہے ۔ اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں جس بری طریقے سے ناکام ہوئی ہے اس کی وجہ سے کئی ممالک نے تو ایک نئی اقوام متحدہ کی تشکیل کیلئے آوازیں بلند کرنا شروع کردی ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میںآج 30 بنیادی انسانی حقوق میں سے کوئی بھی حق نہیں پایاجاتا:  بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق  اقوام متحدہ کی بین الاقوامی دستاویز، یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) میں درج 30 بنیادی انسانی حقوق میں سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں دس لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی حق نہیں پایاجاتا۔
 دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج  اس ظلم اور نانصافی کے خلاف اپنے حق خودارادیت کامنا رہے ہیں، جس کا مقصد بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے ۔لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف مظاہرے، ر یلیوں اور تقریبات میں تحریک آزادی کشمیر کو جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کی جا رہی ہے۔ اس لئے کہ  5جنوری کا دن اقوام متحدہ سمیت عالمی امن کے دعوی دار عالمی اداروں کے ضمیر جنجھوڑنے کا دن ہے۔


کیونکہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے۔انسان چونکہ آزاد پیدا ہوا ہے اور اس کو غلام رکھنے کا حق کسی کو بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آزادی کی تحریکوں کو اقوام متحدہ کے منشور میں جاری و ساری رکھنے کو بنیادی انسانی حقوق کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے حقوق کو اکثر و بیشتر انسانوں کے حقوق نہیں سمجھتی یہی وجہ ہے کہ کروڑوں انسانوں کا بنیادی حق آزادی مسئلہ کشمیر کی صورت میں آج تک دانستہ حل نہیں کیا گیا جبکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی خون کی ندیاں عبور کرکے آج بھی جاری و ساری ہے۔ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دیکھ کر ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مقبوضہ وادی کے ’’ کشمیریوں‘‘ کو حق آزادی سے محروم بدمعاش بھارتی فوج کے بل بوتے پر نہیں رکھا جاسکتاہے۔ پاکستانی فوج نے کشمیریوں کیلئے شہادتوں کی کئی تاریخیں رقم کی ہیں جبکہ بھارتی فوج نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کی قاتل ہے۔


 بھارتی فورسز مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 74 سال سے انسانی حقوق کے اس اعلامیے کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔بھارتی فوجی حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر عمر اور جنس کا لحاظ کئے بغیر بے گناہ کشمیریوں کو بے دردی سے قتل، گرفتار، تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں۔بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں میں سال 2021 کے دوران پانچ خواتین اور پانچ کم عمر لڑکوں سمیت 210 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ان میں سے 65 افراد کو فرضی مقابلوں اور زیرحراست شہید کیا گیا۔ کشمیر کی مزاحمتی تحریک کے ہر دل عزیز رہنما سید علی گیلانی بھی مسلسل نظر بندی کے دوران انتقال کر گئے۔ حکام نے بزرگ رہنما کے اہلخانہ کو ہراساں کیا اور لوگوں کو ان کی نماز جنازہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ تحریک حریت جموں وکشمیر کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی بھی بھارتی پولیس کی حراست میں انتقال کر گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجیوں کے ہاتھوں ان شہادتوں کے نتیجے میں 16 خواتین بیوہ اور 44 بچے یتیم ہوئے جبکہ گزشہ برس باوردی بھارتی اہلکاروں نے 13 خواتین کو بدسلوکی یا بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فورسز نے 67 رہائشی مکانوں اور دیگر عمارات کو تباہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال سے 487 افراد زخمی ہوئے جب کہ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے گھروں پر چھاپوں اور کریک ڈاؤن آپریشنز کے دوران حریت کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز، طلبائاور نوجوان لڑکوں سمیت 2ہزار 7سو 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کئی افراد کو کالے قوانین پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) اور غیر قانونی سرگرمیوںکی روک تھام سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت حراست میں لیا گیا۔بھارتی حکام نے مقبوضہ علاقے میں محرم کے جلوسوں اور عید میلاد النبی ؑﷺ کے اجتماعات کی اجازت نہ دینے کے علاوہ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں 45 ہفتوں تک لوگوں کو نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مزاحمتی رہنما کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، الطاف احمد شاہ، ایاز محمد اکبر، پیر سیف اللہ، راجہ معراج الدین کلوال، شاہد الاسلام اور فاروق احمد ڈار بدستور فرضی مقدمات میں دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امیر حمزہ، محمد یوسف میر، محمد یوسف فلاحی، محمد رفیق گنائی، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، غلام قادر بٹ، ڈاکٹر شفیع شریعتی، مجاہد صحرائی، راشد صحرائی، ظہور احمد بٹ، شوکت حکیم، اسد اللہ پرے، معراج الدین نندا، حیات احمد بٹ، فیروز احمد ڈار، محمد اسلم وانی، شاہد یوسف، شکیل یوسف، فیروز احمد، غلام محمد بٹ، خورشید احمد بٹ، جنید احمد لون، تاجر، ظہور وٹالی، صحافی آصف سلطان اور پی ایچ ڈی کے طالب علم الطاف احمد خان سمیت حریت رہنما?ں، کارکنوں اور نوجوانوں سمیت چار ہزار سے زائد کشمیری کالے قوانین پبلک سیفٹی اور یو اے پی اے کے تحت مقبوضہ جموںوکشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں بند ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف دسمبر 2021 کے مہینے میں بھارتی فوجیوں نے 31 کشمیریوں کو شہید کیا۔ ان شہادتوں سے ایک خاتون بیوہ اور دو بچے یتیم ہو گئے۔ پرامن مظاہرین کے خلاف فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کی وجہ سے کم از کم چھ افراد زخمی ہوئے جبکہ نوجوانوں سمیت 94 شہریوں کو ایک ماہ میں گرفتار کیا گیا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارتی فورسز اہلکاروں نے اس عرصے کے دوران 11 رہائشی مکانات کو تباہ کیا۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی طرف سے5اگست2019کو مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے اب تک بھارتی فورسز اہلکاروں نے 5سو15کشمیریوںکو شہید کیا ہے۔کے ایم ایس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 33برس کے دوران 95ہزار9سو48کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔آج ضرروت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اس منفی تاثر کو ختم کرتے ہوئے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کر وائے اور کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق حق خودارایت دلائے۔ چونکہ مسئلہ کشمیر ہی عالمی امن کا ضامن ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ کیا گیا تو یہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے جس کی لپیٹ میں نہ صرف برصغیر بلکہ عالمی سطح پر بھی وسیع پیمانے پر نقصانات ہو سکتے ہیں ۔آج اقوام متحدہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ یہ نہ صرف یہ عالمی امن کے لئے بہتر ہو گا۔ بلکہ پاکستان بھارت سمیت جنوبی ایشاء میں امن سلامتی اور خوشحالی کا ضامن ہو گا۔ دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج یوم حق خودارادیت منا رہے ہیں، جس کا مقصد بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے ۔لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف سمیت د مظاہرے، ر یلیاں اور تقریبات میں تحریک آزادی کشمیر کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھنے کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔  
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


 5جنوری کا دن اقوام متحدہ سمیت عالمی امن کے دعوی دار عالمی اداروں کے ضمیر جنجھوڑنے کا دن ہے کیونکہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے۔انسان چونکہ آزاد پیدا ہوا ہے اور اس کو غلام رکھنے کا حق کسی کو بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آزادی کی تحریکوں کو اقوام متحدہ کے منشور میں جاری و ساری رکھنے کو بنیادی انسانی حقوق کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے حقوق کو اکثر و بیشتر انسانوں کے حقوق نہیں سمجھتی یہی وجہ ہے کہ کروڑوں انسانوں کا بنیادی حق آزادی مسئلہ کشمیر کی صورت میں آج تک دانستہ حل نہیں کیا گیا جبکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی خون کی ندیاں عبور کرکے آج بھی جاری و ساری ہے۔ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دیکھ کر ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مقبوضہ وادی کے ’’ کشمیریوں‘‘ کو حق آزادی سے محروم بدمعاش بھارتی فوج کے بل بوتے پر نہیں رکھا جاسکتاہے۔ پاکستانی فوج نے کشمیریوں کیلئے شہادتوں کی کئی تاریخیں رقم کی ہیں جبکہ بھارتی فوج نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کی قاتل ہے۔

ای پیپر-دی نیشن