افغان سرحد پر امن کی باڑ مکمل کریں گے : ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنر ل بابر افتخار نے کہا ہے کہ نواز شریف سے ڈیل کی باتیں بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں، کوئی اس طرح کی بات کرے تو اس سے سوال کریں کہ ’’کون کر رہا ہے ڈیل‘‘ اس کا ثبوت کیا ہے؟۔ اس پر جتنی کم بات کی جائے اتنا ملک کے مفاد میں بہتر ہے۔ الحمدللہ ملٹری سول تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیںہے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی سیز فائر نہیں‘ آپریشن ہورہے ہیں۔ حکومت پاکستان افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ رابطہ میں ہے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ سرحد پر باڑ لگانے کا عمل جاری ہے۔ مسلح افواج نے معاشی وسائل کو ہمیشہ سامنے رکھا ہے۔ گزشتہ بجٹ میں افراط زر کی نسبت سے جو اضافہ تھا وہ نہیں لیا۔ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف اداروں کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ ہم ایسی تمام سرگرمیوں کے حوالے سے نا صرف آگاہ ہیں بلکہ ان کے رابطوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ میجر جنرل بابر افتخار نے بحرین میں فوجی مشق میں شرکت کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کو اس مشق کے حوالے سے ابھی علم نہیں ہے، ہم علاقائی مشقوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی دعوت ہے تو اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیز فائر تو ختم ہو چکا ہے، مذاکرات ابھی رکے ہوئے ہیں اور آپریشن ہو رہا ہے، افغان حکومت کی درخواست پر یہ مذاکرات کئے گئے تھے، 5 اگست کے بعد پاکستان کی حکومت نے عبوری طالبان حکومت سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے۔ اس پر انہوں نے کہ کہ وہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لائیں گے اور ان کو پاکستان کے مطالبات ماننے کے لئے کہیں گے۔ ٹی ٹی پی کی کچھ ایسی شرائط ہیں جو ہم قبول نہیں کر سکتے اس لئے کوئی سیز فائر نہیں ہے ہم لڑ رہے ہیں، آپریشن ہو رہے ہیں اور ان کو جاری رکھیں گے جب تک اس عفریت سے نجات حاصل نہیں کر لیتے۔ بھارت کی طرف سے میزائل سسٹم نصب کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم وقوع پذیر ہونے والی صورتحال کے مطابق اپنے اقدامات کر رہے ہیں، سب جانتے ہیںکہ انہوں نے خریداری کی ہے، دوسری جانب جو ہو رہا ہے اس سے آگاہ ہیں اور تیار ہیں۔ افغان حکومت سے باڑ کو نقصان پہنچانے پر احتجاج کرنے کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ کہ یہ مقامی نوعیت کا مسئلہ تھا، حکومت پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطہ میں ہے، ان سے اچھے تعلقات ہیں، ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں، اور مسائل پر بات چیت کرتے رہتے ہیں۔ باڑ بھی ان میں سے ایک ہے، باڑ لگانے کا عمل جاری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی پر ایڈوائزر تفصیلی بات کر چکے ہیں۔ دفاعی، اندورنی اور جغرافیائی سکیورٹی اس کا حصہ ہے، پالیسی بنائے جانے کے دوران بھی ادارے کی طرف سے ان پٹ دی گئی، اس کو پالیسی میں شامل کیا گیا ہے، آئندہ مرحلہ میں اس کا میکنزم بنے گا، اور اس پر عمل کا فریم ورک بنے گا، اور اس پر عمل کیا جائے گا، اس پر وقت لگتا ہے۔ تاہم پالیسی میں قومی ترجیحات کو واضح کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بار بار کہتے ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج حکومت پاکستان کا ماتحت ادارہ ہے، اس کے احکامات کے مطابق کام کرتا ہے، اس میں مزید کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہئے، شام کو ٹی وی پروگرام میں ہر جگہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا، میری درخواست ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بحث سے باہر رکھیں۔ پاکستان کے اندر بہت زیادہ اہم ایشوز موجود ہیں ان پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں لیڈر شپ ہر جگہ بات کر رہی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے پاس جب بھی کوئی عالمی وفد آیا یا وہ کسی فورم پر گئے ہیں، انہوں نے اس مسئلے کو پرزور طریقے سے اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر دنیا میں بہت تشویش ہے، اس کی بڑی وجہ کشمیریوں کی اپنی جدوجہد ہے۔ جس طرح سے پاکستان کی حکومت نے کشمیریوں کے ایشو کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، اس کی وجہ سے آج سنجیدہ بات ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہ افغان حکومت سے جب بات ہوئی کوئی زیادہ اختلافات نہیں ہیں، سرحد پر کچھ واقعات کو اچھالا جا رہا ہے، پاکستان کا باڑ کے بارے میں موقف واضح ہے ، اسے ڈیورینڈ لائن نہیں کہتے یہ بین الاقوامی سرحد ہے، جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ اپنی سرحد کے اندر رہتے ہوئے پاکستان جو بھی کر رہا ہے اسے جاری رکھے گا۔ افغان حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جو مسائل آتے ہیں ان کو حل کر لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش یا دوسری دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کے جن علاقوں میں بیٹھی تھیں جب انخلا ہوا، تو امن وامان کا جو میکنزم تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ اس کی وجہ سے ان گروپوں نے اس خلا میں تحرک کیا۔ واقعات اس کی وجہ سے بڑھے، جب ہم نے افغان حکومت سے کہا کہ ان کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو تو انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی پر ان کا ایک اثر ہے ان کو ٹیبل پر لائیں گے اور وہ بات سنیںگے، اس طرح کی تنطیموںکی اپنی اندرونی جہتیں بھی ہوتی ہیں، انہوں نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے حملے کئے، مگر وہ کوئی بڑا دہشت گردی کا واقعہ پاکستان میں نہیں کر سکے، ان کے حملوں کو ناکام بنایا گیا۔ معاشی حالات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہر چیز میں معاشیات کا عمل دخل ہے، دفاع بھی اسی سے سپورٹ ہوتا ہے، معاشی چیلنجز نئے نہیں ہیں، ہم ہر اس طرح کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ مسلح افواج نے معاشی وسائل کو سامنے رکھا ہے اور گزشتہ بجٹ میں افراط زر کی نسبت سے جو اضافہ تھا اسے نہیں لیا تھا۔ دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کی موجودگی اس طرح سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا دہشت گروں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اب ہم ان کے پیچھے جاتے ہیں، جب ان کے پیچھے جائیں گے تو جانی نقصان ہوتا ہے، جو قربانی دینی پڑی دیں گے۔ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر آ جائے گا۔ فوج کی ائر ڈیفنس کو بہتر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبوں کی پیشرفت بہت اچھی ہے۔ میڈیا کو کچھ منصوبوں کا دورہ بھی کرایا جا رہا ہے۔ جو پروپیگنڈا ہو رہا ہے، یہ کہاں سے ہو رہا ہے اس سے واقف ہیں۔ انہوں کہا کہ 23مارچ کی پریڈ ہو گی۔ این سی او سی کی جو ہدایات ہوں گی اس کے مطابق عمل ہو گا۔ سکیورٹی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج کو بھی اپنی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ اپنے خلاف جو خطرات ہیں انکا تجزیہ کرنا ہے، اس کے علاوہ اپنے معاشی وسائل کو پیش نظر رکھنا ہے۔ ہمیں اپنے فلیٹ کو اپ گریڈ کرنا ہے۔ طاقت کا توازن ہے اس میں کوئی عدم توازن آتا ہے تو وہ خطرناک ہے۔ ہمارے پاس جوبھی آلات ہیں ان کی مدد سے بھی کسی خطرے کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پریس بریفنگ کا مقصد نیشنل سکیورٹی ڈومین میں خطے کے بدلتے حالات کے تناظر میں ملکی دفاع، داخلی سلامتی، بالخصوص آپریشن ردالفساد کے تحت مختلف اقدامات کا احاطہ کرنا تھا۔ پاک - بھارت ایم او ڈی جیز کے مابین2003 سیز فائر ایگریمنٹ پر عملدرآمد کے حوالے سے فروری2021 ء میں جو رابطہ ہوا اس کے بعد سے اے ایل او سی پرامن رہی۔ ہندوستانی لیڈر شپ کی گیدڑ بھبھکیاں اور ایل او سی پر پاکستان کی جانب سے دراندازی کا مسلسل جھوٹا پراپیگنڈا ایک خاص سیاسی ایجنڈے کی عکاسی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد بھارتی غیرقانونی قبضے والے کشمیر میں بدترین ریاستی مظالم اور ڈیموگرافی میں ہندوستان جو تبدیلیاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس سے توجہ ہٹانا ہے۔ ایک طرف تو بھارت اندرونی طور پر مذہبی انتہاپسندی کی طرف گامزن ہے جس کا چرچا اب پوری دنیا میں ہے۔ دوسری جانب ہندوستان نے خطے کے امن کو داؤ پر لگاتے ہوئے دفاعی خریداری کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سے نہ صرف روایتی جنگ میں طاقت کا توازن متاثر ہو گا بلکہ خطے میں اسلحہ کی دوڑ سے امن پر شدید منفی اثرات مرتب ہونگے۔ کنٹرول لائن پر ہندوستان کے سکیورٹی میکنزم کی موجودگی میں دراندازی کا جھوٹا پروپیگنڈہ انتہائی مضحکہ خیز اور خود ان کے سکیورٹی میکنزم پر سوالیہ نشان ہے؟۔ حال ہی میں ہندوستان کی فوج نے نیلم ویلی کے سامنے کرن سیکٹر میں دراندازی کے نام پر ایک اور جعلی مقابلہ میں ایک معصوم کشمیری کو شہید کر دیا اور الزام پاکستان پر لگا دیا۔ جس شبیر نامی مبینہ دہشتگرد کی یونیفارم میں تصاویر ہندوستانی میڈیا چلا رہا ہے وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس وقت بھی آزاد کشمیر کے علاقے شاردہ میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہندوستان ایل او سی کے اردگرد بسنے والے کئی ایسے بے گناہ لوگوں کو شہید کر چکا ہے۔ لیکن اب تو ہندوستان اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کی مستند سیاسی قیادت اور دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بھارتی فوج دہشتگردی کے نام پر بے گناہ معصوم کشمیریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور ان کی آزادی کی مقامی اور تحریک آزادی کو ناجائز طور پر مسخ کرنے کے درپے ہے۔ سچ یہ ہے کہ کشمیر میں انسانی تاریخ کا بد ترین محاصرہ اگست2019 سے جاری ہے۔ کشمیر یوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا گھناؤنا کھیل تمام بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے جاری ہے۔ ایک عالمی جریدے کی27اکتوبر کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کس طرح ہندوستان کے اگست2019کے غیر قانونی اقدام نے ایک خراب صورتحال کو بدترین انسانی المیے میں تبدیل کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس جو کہ ہندوستان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق تھیں، کا خاص طور پر ذکر کیا کہ کس طرح 7دہائیوں سے ہندوستان کی کشمیریوں کے خلاف فوجی، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی جنگ جاری ہے اور کس طرح وہ جنیوا کنونشن اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 5جنوری کے موقع پر کشمیری عوام کو اپنے حق خود ارادیت کیلئے، جس کا وعدہ اقوام متحدہ نے 1949میں کیا تھا، کیلئے لازوال جدوجہد اور ان کی بے مثال بہادری اور قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں ایک اہم آپریشن دْواتوئی کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پاک افغان بارڈر پر مکمل ریاستی رٹ بحال ہوئی۔ یہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں مشکل ترین موسمی حالات دہشتگردوں کو بارڈر کے دونوں جانب نقل وحرکت کی سہولت میسر کرتے تھے۔ سخت زمینی کیفیت اور شدید موسمی حالات کے باعث اس علاقے میں فینسنگ کا کام بھی شروع نہیں کیا جا سکا تھا جو اس آپریشن کے بعد مکمل کر لیا گیا ہے۔ مکمل طور پر بارڈر مینجمنٹ کے تحت جو کام جاری ہیں وہ معینہ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ بارڈر مینجمنٹ کے تحت پاک افغان بین الاقوامی سرحد کی باڑ کا کام تقریباً مکمل 94 فیصد کرلیا گیا ہے اور پاک ایران بارڈر پر 71 فیصد سے زائد کا کام ہوچکا ہے۔ پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر لگائی باڑ دونوں اطراف بسنے والے لوگوں کو سکیورٹی، آمدورفت اور تجارت کو ریگولیٹ کرنے کیلئے وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں بلکہ محفوظ بنانا ہے۔ اس باڑ کے لگانے میں ہمارے شہداء کا خون شامل ہے۔ امن کی یہ باڑ مکمل ہو گی اور انشاء اللہ قائم رہے گی۔ افواہوں، غلط فہمیوں اور صورت حال خراب کرنے والوں کا سدباب کرتے ہوئے خاص علاقوں اکا دکا واقعات اور مسائل کو بردباری اور مکمل احتیاط سے حل کرنا ہے تاکہ بنیادی مقصد یعنی امن کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ افغان سرحد پر پاکستان کی1200سے زائد بارڈر پوسٹس ہیں جبکہ سرحد کی دوسری جانب377 بارڈر پوسٹیں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سے دوسری پوسٹ کے درمیان کم از کم 7-8کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ جس کے نتیجے میں دوسری جانب سے کسی بھی غیر قانونی مومینٹ اور تخریبی کارروائی کو چیک کرنا ایک چیلنج ہے 2021میں پاک افغان بارڈر پر 164 اور پاک ایران بارڈر پر 31بارڈر فورٹس اور 60واچ ٹاورز کی تعمیر ہو چکی ہے جبکہ مجموعی طورپر اب تک673 فورٹس / بارڈر پوسٹس اور بارڈر ٹرمینلز تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال ایک سنگین انسانی اَلمیے کو جنم دے سکتی ہے۔ جس کا براہ راست اثر پاکستان اور خطے کی سلامتی اور سکیورٹی پر ہو گا۔ بلوچستان میں ملک دْشمن عناصر کی سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کی تمام مذموم کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ کرونا کیسز میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو رہا ہے۔ کووڈ کے چیلنجز کے باوجود مسلح افواج نے مختلف انٹرنیشنل ملٹری مشقوںمیں حصہ لیا،جس میں امریکہ، روس، سعودی عرب، چائنہ، ترکی، مصر، آذربائجان اور اردن کی افواج کے ساتھ مشقیں قابل ذکر تھیں۔ افواج پاکستان کی طاقت عوام سے ہے اور اس رشتے میں دراڑ ڈالنے کی تمام کوششیں ناکام ہونگی۔ 2022پاکستان کی آزادی کے75سالہ تقریبات کا سال ہے۔ ان گزرے سالوں میں پاکستان کو کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ لیکن ہم نے من حیث القوم ان تمام چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کیا۔ آئیے اسلاف کی قربانیوں کی تجدید کرتے ہوئے پاکستان کو ایک خْوشحال، پْر امن اور محفوظ مْلک بنانے کیلئے اپنا اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کریں۔اگر ہم آپریشن ردّالفساد کا جائزہ لیں تویہ آپریشن دیگر آپریشنز کے مقابلے میں مختلف ہے۔یہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے اْن کے تمام منطم ڈھانچے کو تباہ کیا اور کئی دہشت گرد تنظیموں کا مکمل صفایا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور کے پی میں پولیو مہم پر اثر انداز ہونے کیلئے پولیو سیکورٹی ٹیمز کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم چیلنجز کے باوجود پولیو مہم کامیابی سے جاری رہی۔ بارودی سرنگوں کے خاتمے کے دوران سکیورٹی فورسز کے بہت سے اہلکار زخمی اورشہید بھی ہوئے۔ 2014 میں کراچی کرائم امڈیکس میں دْنیا میں چھٹے نمبر پر تھا۔ 2021 میں بہتر ہو کر ہو کر 129 نمبرپر آچکا ہے۔کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور اغوائ برائے تاوان کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔2021میں 248آفیسرز اور جوانوں نے مختلف آپریشنز میں دفاعِ وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ہم شہداء پاکستان اور اِن کے لواحقین کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ 78سے زائد دہشت گرد تنظیموں اور سرکردہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور ایکشن کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان اور پیغامِ پاکستان پر مکمل عمل درآمد کرکے انتہا پسندی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہیٹ سپیچ اور شدت پسند مواد پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے بیانیے اور اس کی تشہیر کو مؤثر طریقے سے ناکام بنایا گیا۔ خاص کر وہ نکات جو کہ فرقہ واریت، لسانیت اور نفرت انگیز مواد کے متعلق ہیں اْن اقدامات پر عمل درآمد سے ہی معاشرے میں ہم آہنگی اور رواداری قائم کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے علماء کرام، میڈیا اور عوام نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے جو کہ قابلِ ستائش ہے۔ کسی بھی فرد یا مسلح گروہ کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ قانون کی بالادستی اور پاسداری سے معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ طاقت کا استعمال صرف ریاست کا استحقاق ہے اور اس حوالے سے کسی سے بھی کوئی رعائت نہیں برتی جائے گی۔ خطے کے بدلتے سیکیورکی مناسبت سے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج ملکی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اپنی صلاحیتوں اور استعداد کو درپیش چیلنجز سے ہم آہنگ رکھیں۔