کین کمشنر پنجاب کے پریس ریلیز نے میرے موقف کی تصدیق کردی
تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
معزز قارئین گنے اور چینی کے ایشو پر میں نے ہمیشہ کسانوں اور عام آدمی کے مفادات کے لئے لکھا۔ چینی کے ایشو پر میرے تمام تجزیئے آپ پڑھ چکے ہیں۔ آج میں آپ کے سامنے کین کمشنر پنجاب کی پریس ریلیز من و عن پیش کر رہا ہوں جس میں میرے اب تک کے تمام تجزیوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ ملک میں مجموعی طور پر اس سال گنے کی فصل بھر پور ہوئی۔ پہلے شوگر ملوں نے گنے کی کرشنگ تاخیر سے شروع کرنے کا واویلا مچایا پھر کہا کہ عوام کے مفاد میں کرشنگ 15نومبر سے سندھ اور جنوبی پنجاب میں جبکہ 20 نومبر کو وسطی پنجاب اور خیبر پی کے شروع کر رہے ہیں۔ لیکن ہوا یہ پنجاب بھر میں شوگر ملوں 15 نومبر سے ہی کرشنگ شروع کر دی کچھ دنوں بعد پھر شور مچایا کہ مڈل میں میدان میں آ گیا ہے اور گنا مہنگا ہو گیا ہے اور اس حوالے سے 3 پریس ریلیزیں جاری کیں لیکن کین کمشنر پنجاب کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز نے ان کے تمام دعوے جھوٹ ثابت کئے ہیں۔ کین کمشنر پنجاب کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پنجاب بھر کی شوگر ملوں کو گنے کی سپلائی تسلی بخش طریقے سے جاری ہے جس سے اب تک 16لاکھ میٹرک ٹن سے زائد چینی پیدا ہو چکی ہے۔ صوبے میں اس وقت وافر مقدار میں چینی دستیاب ہے تاہم چینی کی قیمت اس کی پیداواری لاگت سے مطابقت نہیں رکھتی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ شوگر ملز کا یہ دعوی کہ گنے کی فی من اوسط قیمت 300روپے ہے قطعاً بے بنیاد ہے۔ شوگر ملز کی اپنی دستخط شدہ رپورٹ(SCR_II )کے مطابق 31دسمبر 2021 تک گنے کی اوسط قیمت 244 روپے من تھی۔ یہ رپورٹس شوگر ملز نے کین کمشنر آفس میں جمع کرائی ہیں۔ شوگر ملز کی اپنی رپورٹس کے مطابق ایک من گنے سے ساڑھے چار کلو سے زائد چینی پیدا ہو رہی ہے۔ تاہم کین کمشنر آفس لیبارٹری کے مطابق ایک من گنے سے 5 کلو سے زائد چینی تیار کی جارہی ہے۔ اس لحاظ سے چینی کی موجودہ قیمت فروخت گراں فروشی کے زمرے میں آتی ہے۔ کچھ حکم ہائے امتناعی کے باعث کین کمشنر آفس مقررشدہ نرخوں پر شوگر ملوں سے چینی نہیں ٹھوس سکتا لہذا شوگر ملز اخلاقی طور پر اس بات کی پابند ہیں کہ عوام کو مناسب نرخوں پر چینی مہیا کریں۔ چینی کی موجودہ نرخوں کے ذمہ دار ذخیرہ اندوز بھی ہیں جن کو شوگر ملوں کے تعاون کے بغیر بے نقاب نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت پنجاب نے 2021میں پنجاب شوگر (سپلائی چین مینجمنٹ )آرڈر 2021 جاری کیا جس کی رو سے شوگر ملز اس بات کی پابند ہیں کہ چینی کی فروخت کا ریکارڈ کین کمشنر آفس کو فراہم کریں تاکہ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی پر قابو پایا جا سکے تاہم پچھلے سال کے دوران بار بار طلب کرنے کے باوجود شوگر ملوں نے چینی کی فروخت کا کا ریکارڈ مہیا نہیں کیا۔ اس طرح ذخیرہ اندازوں کی نشاندہی ممکن نہیں ہو سکی۔بذریعہ پریس ریلیز لہذا شوگر ملوں کو ایک مرتبہ پھر ہدایت کی جاتی ہے کہ چینی کی فروخت کا ریکارڈ کین کمشنر آفس کو ایک ہفتے میں فراہم کریں بصورت دیگر ان کے خلاف قانون کی خلاف ورزی پر قانونی کاروائی کی جائے گی۔ چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی خاطر حکومت نے حکم امتناعی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی ہے۔ حکم امتناعی/سٹے آرڈر خارج ہونے کی صورت میں شوگر ملوں سے مقرر شدہ قیمت پر چینی عوام کو فراہم کرنا شروع کر دی جائے گی۔ معزز قارئین میں نے اپنے گزشتہ تجزیئے میں تجویز دی تھی کہ ملوں کی گندم، گنے اور چاول کی خریداری سرکاری نگرانی میں کرائی جائے۔ اس طرح کسانوں کو پوری قیمت ملے گی، حکومت کو درست اعدادوشمار ملیں گے اور عوام کو مقررہ قیمتوں پر آٹا، چینی اور چاول ملیں گے۔