دعا کا طریق کار
مکرمی! ویسے تو انسان اپنی فریاد، حاجات اور مناجات ہر وقت ہی اللہ پاک کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ اس مقصد کیلئے کوئی خاص وقت تو مقرر نہیں ہاں البتہ تہجد کا وقت ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب بندے اور خدا کے درمیان کچھ بھی حائل نہیں ہوتا ، بندہ تب اپنی درخواستیں نہایت عاجزی اور خلوص کے ساتھ اپنے مالک اور آقا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ دعا کرنے سے پہلے لازم ہے کہ جس مقصد کیلئے دعا کرنا مقصود ہے اس کیلئے اپنے تمام ظاہری اسباب بروئے کار لائے جائیں پھر رب تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ یا مالک جو میرے بس میں تھا وہ میں نے کیا ہے اب نتیجہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ نبی پاکؐ نے جنگ بدر کے موقع پر کہا کہ پہلے اپنے 313 صحابہؓ اور معمولی اسباب جو میسر تھے وہ سب لاکر میدان جنگ میں اتار دیئے۔ پھر رب کے سامنے سربسجود ہوئے اور یہی فرمایا کہ مولا میرے بس میں جو تھا میں لے آیا اب فتح و نصرت تیرے ہاتھ میں ہے، رب نے پھر فتح و نصرت سے ہمکنار بھی کیا۔ افسوس تو بس یہی ہے کہ کسی بھی معاملے میں ہم پریکٹیکل اپروچ نہیں رکھتے اور زندگیاں معجزوں کے انتظار میں گزارنے کے عادی بنا دیئے گئے ہیں۔ اللہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے جب جی چاہے دستک دے لو۔ اللہ کا در ہی ایک ایسا در ہے جہاں الفاظ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ تو دلوں کے بھید تک سے واقف ہے وہ تو گونگے کی بات بھی سمجھ لیتا ہے جو الفاظ کی ادائیگی کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا وہ سخی اور داتا ہے۔ اپنے در پہ آئے ہوئے کو خالی ہاتھ لوٹانا اس کی شان کبریائی کیخلاف ہے۔ (محسن امین تارڑ ایڈووکیٹ ، گکھڑمنڈی)