• news

مری میں زندگی معمول پر نہ آسکی ، سیاحوں کے داخلہ پر پابندی میں توسیع

مری (اپنے سٹاف رپورٹر سے + نوائے وقت رپورٹ) مری میں برفانی طوفان کے تین روز بعد بھی زندگی معمول پر نہیں آسکی۔ پانی، بجلی کی فراہمی مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی، موبائل فون سروس بھی متاثر رہی۔ مری میں پھنسے سیاحوں کی بڑی تعداد واپس چلی گئی۔ تفصیلات کے مطابق مری اور قریبی علاقوں کی مرکزی شاہراہوں پر گزشتہ روز سے ٹریفک بحال ہوگئی تاہم دیہی علاقوں کو جانے والی تمام سڑکیں بند ہیں، مقامی شہریوں کو شدید دشواری کا سامنا رہا۔ شہر میں بجلی کا نظام شدید متاثر ہوگیا، 5دن میں سے چند ہی گھنٹے بجلی فراہم کی جاسکی، دیہی علاقوں میں  بجلی پانچویں روز بھی معطل رہی۔  پانی جم جانے سے شہر میں پانی کی بھی شدید قلت پیدا ہوگئی۔ شہر کے بیشتر ہوٹل خالی ہوچکے ہیں۔ مری کی تمام سڑکوں سے برف صاف کردی گئی۔ کلڈنہ باڑیاں روڈ پر پھنسی گاڑیوں کو بھی مالکان کے حوالے کر دیا گیا۔ سترہ میل کے مقام پر بدستور پولیس اور دیگر اہلکار تعینات ہیں۔ دوسری جانب ٹھنڈیانی میں سرکاری ٹی وی کے 8 ملازمین 4 روز سے برفباری کے باعث محصور ہو کر رہ گئے۔ سرکاری ٹی وی بوسٹر پر تعینات ملازمین کے پاس کھانے پینے کی اشیاء ختم ہو گئیں۔ توحید آباد‘ کنڈلہ کے قریب لینڈ سلائیڈنگ ہونے سے گلیات کے بیشتر علاقوں سے زمینی راستہ منقطع ہو گیا۔  سیاح چوتھے روز بھی نتھیا گلی میں محصور ہیں۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے آپریشن تاحال جاری ہے۔ ادھر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے راولپنڈی کے علاقے رسول نگر صادق آباد میں سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والے 6 افراد کے گھر جاکر تعزیت کی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے جاںبحق ہونے والوں کے لواحقین سے دلی افسوس کا اظہار کیا۔  وزیر داخلہ کے حکم پر  اسلام آباد کے راستے مری  اور گلیات کے تمام داخلی راستے سیاحوں کیلئے آج رات 9 بجے تک بدستور بند رہیں گے، مدت میں 24 گھنٹے کا اضافہ کر دیا گیا۔ مری کے رہائشیوں پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔ راولپنڈی کی تحصیل مری کو ضلع کا درجہ دینے اور اس کا نیا نام ضلع کوہسار رکھنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ سیاحتی علاقے کے لیے کوہسار ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ضلع کوہسار کی حد بندی کے لیے بورڈ آف ریونیو سے سفارشات طلب کر لی گئی ہیں۔ تجویز کردہ ضلع کوہسار کے علاقے کی حد خیبر پختونخوا تک ہو گی۔ جبکہ راولپنڈی ضلع کی حدود بھی نئے سرے سے طے کی جائیں گی۔

ای پیپر-دی نیشن