سانحہ مری : قومی اسمبلی میں شدید جھڑپ الزامات
اسلام آباد (نا مہ نگار) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے سانحہ مری کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مری سانحے پر وزیراعظم عمران خان کی ٹوئٹ پر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر انتظامیہ تیار نہیں تھی تو آپ کس مرض کی دوا ہیں، استعفی دیں اور گھر جائیں۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمیں بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سیاست سے پہلے انسانیت سیکھیں جبکہ وفاقی فواد چوہدری نے کہا کہ تیس تیس سال حکومت کر کے یہ لوگ لیڈر نہیں بن سکے، اگر انہوں نے محل کھڑے نہیں کیے ہوتے تو آج یہ مری کا سانحہ نہیں ہوتا۔ پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ معمول کی کارروائی کو معطل کرکے سانحہ مری پر بحث کی جائے، سپیکر نے کہا کہ کمیٹیوں کی رپورٹس پیش کر لینے دیں اس کے بعد سانحہ مری پر بحث ہو گی جس پر اپوزیشن نے شور کر نا شروع کر دیا اور مطالبہ کیا کہ سانحہ مری پر بحث کی جائے، جس پر سپیکر نے سانحہ مری پر بحث کا آغاز کر نے کے لیے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کہا کہ مری میں پیش آنے والے سانحے میں 23افراد کے جاں بحق ہونے پر پورے ایوان کی طرف سے تعزیت کرتا ہوں، برفباری جاری تھی اور گاڑیوں میں 20گھنٹے لوگ پھنسے رہے لیکن کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ میں سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ کوئی قدرتی حادثہ تھا یا یا انسانوں کا قتل عام تھا، حقیقت یہ ہے کہ وہاں کوئی انتظام نہیں تھا، ٹریفک پولیس موجود نہیں تھی اور برف ہٹانے کی ذمے دار سی ایم ڈبلیو بھی موجود نہیں تھی۔ لوگ اپنی جان کی بھیک مانگتے رہے، کوئی پرسان حال نہیں تھا، یہ ایک انتظامی اور بدترین نااہلی و نالائقی کا مجرمانہ فعل ہے جس کی کوئی معافی نہیں ہے، جب محکمہ موسمیات نے ان کو خبردار کردیا تھا کہ شدید برفباری ہونے والی ہے تو حکومت نے کیا انتظامات کیے تھے۔ رش تھا تو مزید سیاحوں کو جانے سے روکنے کے لیے کیا انتظامات کیے، ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع تو نہیں تھا کہ مری میں اتنی برف پڑی ہو یا سیاحوں کا اتنا رش ہو، یہ تو پچھلے دو سال کووڈ کی وجہ سے لوگ مری اور دوسرے پہاڑوں پر نہ جا سکے ، انہوں نے کہا کہ ٹوئٹ کی جاتی ہے کہ انتظامیہ تیاری نہیں تھی، اگر انتظامیہ تیار نہیں تھی تو آپ کس مرض کی دوا ہیں، استعفی دیں اور گھر جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب یہ حادثہ ہوا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا، ایک نیرو اسلام آباد میں سویا ہوا تھا اور دوسرا نیرو پنجاب میں انتظامی امور کی آڑ میں بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کرنے میں مصروف تھا، مری میں حادثہ ہو چکا تھا اور ان کو قطعا علم نہیں تھا۔ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے، ان 23افراد کی موت کی 100فیصد ذمے دار یہ حکومت ہے اور انہوں نے یہ قتل عام کیا ہے اور قوم یہ خون انہیں معاف نہیں کرے گی۔ پوری اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امید تھی کہ قائد حزب اختلاف ایک لیڈر کی طرح آج خطاب کریں گے لیکن انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا وہ ایک معمولی لیڈر ہیں جو ہر حادثے پر شعبدے بازی اور سیاست کر سکے، اس کے علاوہ ان کے پاس آج بھی کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ تیس تیس سال حکومت کر کے یہ لوگ لیڈر نہیں بن سکے۔ یعنی آج کے دور کا پابلو آسکوبار ہمیں بتا رہا تھا کہ نیرو سورہا تھا، اگر انہوں نے محل کھڑے نہیں کیے ہوتے تو آج یہ مری کا سانحہ نہیں ہوتا۔فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں نئے شہروں کی بنیاد رکھی، ملک میں اندرونی سیاح کا انقلاب برپا ہو چکا ہے تو ہمیں یہ سبق دے رہے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ جب پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی باہر لوگوں کے ساتھ ساتھ کھڑے تھے اور مری کے عوام کے ساتھ مل کر ریسکیو کی کوششیں کررہے تھے،شاہد خاقان عباسی سے لے کر مسلم لیگ(ن)کا کوئی بھی رکن اسمبلی وہاں نہیں گیا۔ وزیراعلی پنجاب مری میں تھے، تحریک انصاف کے کارکنان مری میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاحت کو دیکھتے ہوئے نیا سیٹ اپ بنانا پڑ رہا ہے تاکہ وہ بڑی آبادی سے اھاطہ کر سکے ،ہم نئے پاکستان کو تعمیر کررہے ہیں ۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سانحہ مری پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی مذمت کرتے ہیں اور اس سانحہ پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور زمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے،، انہوں نے کہا کہ بہت افسوس ہے کہ اسلام آباد سے دو گھنٹے دور مری میں سانحہ ہوا لیکن ہم ان کو وہ مدد نہیں پہنچا سکے، جو ان کو ملنی چاہیے مری سانحہ پر کوئی تو ایکشن لیتا ،جو وزیر لوگوں کے مری جانے کو معیشت کی بہتری کا کہہ رہا تھا وہی وزیر پہلے دن کہتا ہے کہ مری پہنچو، جب حادثہ ہوتا ہے تو بیان بدل جاتا ہے حقائق سامنے لا کر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ ایسا واقع نہ ہو سکے ،انہوں نے کہا کہ ہر چیز مہنگی ہے لیکن خون سستا ہو گیا ہے معاملات کنٹرول میں تھے تب جا کر وزیر اعلی پنجاب نے ہوائی دورہ کیاحکومتی وزرا کی طرف سے اس معاملے پر سیاست کی جا رہی ہے اس کی مذمت کرتے ہیں یہ سیاست سے پہلے انسانیت سیکھیں ۔ سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ یہ درد ناک واقعے ہوا ہے اس پر حکومت اور اپوزیشن اپنا نقطہ نظر پیش کرے اگر اختلاف کرنا ہے تو ایسے نہ کیا جائے کہ لوگ ہم پر ہنسیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما صلاح الدین مری سانحہ کی زمہ داری مری انتظامیہ اور این ڈی ایم اے پر ڈالتا ہوں وہاں پر پھنے ہوئے لوگوں نے اداروں اور اپنے رشتے داروں سے رابطہ کیا ہے لیکن مدد نہ پہنچی۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما مولانا اسعد محمود نے کہا کہ ہماری جماعت کی تنظیم انصار الاسلام نے لوگوں کی مری میں مدد کی مساجد اور مدارس کے دروازے کھولے یہ وہی جماعت ہے جس پر وزیر اعلی پنجاب نے پابندی لگائی تھی ، مری واقع کو بھی گزشتہ حکومتوں پر ڈال دیا جائے گا ، یہ حکومت کنٹرول نہیں کر سکی تو 22کروڑ عوام کو کیسے کنٹرول کریں گے۔ اسلم بھوتانی نے کہا کہ ہمیں مری سانحے پر افسوس ہے لیکن گوادر،لسبیلہ،تربت،اوتھل سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارشوں سے لوگوں کے نقصانات ہوئے ہیں وفاقی حکومت ان کی امداد کے لیے پیکیج کا اعلان کر ے،مری سے رکن قومی اسمبلی صداقت عباسی نے کہا کہ یہ عام برفباری نہیں تھی بلکہ برفانی طوفان تھا راستوں کی بندش درخت اور بجلی کے کھمبے گرنے کی وجہ سے ہوئی، ،یہ بات غلط ہے کہ لوگ سردی سے ٹھٹھر کر مرے اموات کاربن مونو آکسائیڈ سے ہوئی ،اگر ن لیگ کے دور میں پارکنگ پلازہ بنایا ہوتا یہ سانحہ نہ ہوتا،پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت اپنی غلطی تسلیم کر نے کی بجائے کہہ رہی ہے کہ ملک میں ترقی ہو رہی ہے یہ غیر سنجیدہ رویہ ہے یہ کنٹینر سے اتر کر بھی کنٹینر سے نہیں اتر سکے۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس آج بروز منگل سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان ملاقات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات قومی اسمبلی ایوان میں ہوئی۔ ملاقات میں حکومت مختلف احتجاجی تحریک اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں منی بجٹ پر حکومت کے خلاف ملکر جدوجہد کرنے کا اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت ہٹاؤ ملک بچاؤ تحریک پر یکساں مؤقف پر کاربند ہیں۔اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق میڈیا بات چیت میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پہلے دن سے پارلیمان کو اہمیت دی نہیں دی، تمام سانحوں میں وزیراعظم خود موجود نہیں تھے۔ ہمارا وزیراعظم کے لیے پیغام ہے کہ گھبرانے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں آپ کو اس ظالم حکومت سے نجات ملے۔ یہ منی بجٹ کی صورت میں ایک اور معاشی بم گرانے جا رہے ہیں۔ ہم منی بجٹ کی مخالفت کریں گے اور عوام میں جائیں گے۔ عوام کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتے۔ ملکر جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہمیں ملکر اسلام آباد پہنچنا ہوگا۔ ہم حکومت ہٹانے کیلئے جمہوری آئینی اور پارلیمانی طریقے کے حامی ہیں۔