• news
  • image

پولیس نظام میں اصلاحات کیجئے

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سروے کی رپورٹ میں پولیس کا محکمہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے کرپٹ ترین ادارے کی حیثیت سے سامنے آیا ،سوال یہ ہے کہ پاکستان میں محکمہ پولیس کرپشن کی وجہ سے پہلے نمبر پر ہے اسکی وجہ کیا ہے،اس میں محکمے میںہونیوالی کرپشن کے تعین کا معیار کیا ہے،کیا کرپشن صرف تھانے کی سطح پر ہورہی ہے کیا کرپشن صرف تھانے میں تعینات کانسٹیبل، محرر،تھانیدار ، ایس ایچ او ،انویسٹی گیشن انچارج اور سرکل کے ایس ڈی پی او، پر آکر ختم ہوجاتی ہیں کہ اس سے اوپرکے افسران بھی اس میں ملوث ہیں آخر دیکھا جائے تو وہ کونسے محرکات ہیں جن کی بنیاد پر اس محکمے کا نہ تو روایتی کلچر تبدیل ہوسکا اور نہ ہی کرپشن کی شکایات ختم ہوسکی ، اقتدار کی اعلی ترین مسند پر بیٹھے ہر (صاحب اختیار)اور اسکے من چاہے افسران نے پولیس کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا ، یقین جانئے دنیا بھر میں محکمہ پولیس اور اسکے دیگر شعبوں میں کسی بھی قسم کی سیاسی اور انتظامی مداخلت نہیں کی جاتی بلکہ ان ممالک میں بھاری بھرکم فنڈز کی بدولت سے پولیس کے شعبے کو کو جدید ترین خطوط پر استوار کرکے اس میں تعینات افسران و اہلکاروں کوبہترین معیار زندگی بھی فراہم کیاگیا ہیں،لیکن ہمارے ہاں صورتحال اس سے مکمل طور پر برعکس ہے ، محکمہ پولیس کو ملنے والے سرکاری فنڈز کا بڑا حصہ آج بھی سکیورٹی کے نام پر اعلی شخصیات اور اعلی پولیس افسران پرتواتر سے استعمال ہورہا ہیں ،صوبائی حکومتوں اور سیاسی پولیس افسران کی ،مہر بانیوں،کی وجہ سے پولیس میں کانسٹیبلری سے لیکر انسپکٹر تک کے افسران کی بڑی تعداد بوسیدہ فلیٹوں،دکانوں،کرائے کی خستہ حال عمارتوں، کنٹینرز،خیمہ بستیوں ، گندے نالوں کے کناروں پر واقع تھانوں میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ڈیوٹیاں سرانجام دینے پر مجبور ہیں۔ قارئین کرام:ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سروے رپورٹ میں کرپشن کی درجہ بندی کے پہلے نمبر پر آنیوالی محکمہ پولیس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک کانسٹیبل جس نے صبح کا ناشتہ اور دوپہر کے ساتھ رات کی روٹی کھانی ہے ، اسکے میس میں دوپہر اور شام کی روٹی کا خرچہ صرف 3800 روپے ہے جبکہ اسکا راشن الاؤنس صرف681 روپے ماہوار اور 7روپے یومیہ ہے،اس راشن الاؤنس کو گزشتہ 10سال سے کسی حکومت نہیں بڑھایا کیونکہ انکی نظر میں پولیس کانسٹیبل ایک الگ ہی مخلوق ہے جوکہ مٹی کھا کر بھی گزارہ کر لیتا ہے،وباؤں کے اس دور میں میڈیکل الاؤنس کے نام پر انکو ماہانہ1500 سو روپے کی خطیر رقم ملتی ہے جبکہ ہاؤس رینٹ کے نام پر 1476 روپے کی ملنے والی رقم بھی موجودہ دور میں ایک حکومتی مذاق معلوم ہوتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سروے رپورٹ میں کرپشن کاپہلا نمبر حاصل کرنیوالی پولیس کے اہلکارکو سرکاری طور پر ملنے والے کنوینس الاؤنس کے 2856 روپے سے موٹر سائیکل پر سارا مہینہ ڈیوٹی پر آتے جاتے ہیں، اسی کنوینس الاؤنس کے ا ندر ایمر جنسی اور دیگر نوعیت کی ہنگامی ڈیوٹیاں بھی سرانجام دینا اسکے فرائض میں شامل ہے۔ واشنگ الاؤنس کے نام پر ملنے والے 150 روپے سے اس نے پورا مہینہ کپڑے اور وردی دھلوانی ہے یہی نہیںپولیس اہلکاروں کوجو وردی ملتی ہے وہ چھوٹی یا بڑی ہونے کی وجہ سے پہنے کے قابل نہیں ہوتی جبکہ اس وردی کے بھی دیگر تمام آئٹم جیب سے لینے پڑتے ہیں۔ تھانے کی موبائل گاڑی کو یومیہ 14لیٹر ڈیزل کے ساتھ 24 گھنٹے گشت کرنی پڑتی ہے ، پٹرولنگ کے نام پر ملنے والا یہ14لیٹر تیل جوکہ محض8 گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے جس کے بعد دوسری گشت کرنیوالے، تھانیدار ،علاقے میں رہنے والے ،شرفاء سے پیسے مانگ کر سرکاری گشت کا اہتمام کرتے ہیں پھر یہی طریقہ کار تیسری گشت والے بھی اپناتے ہیں،یہی نہیں مخیر حضرات کی مدد سے پٹرولنگ کیلئے موجود دھکا سٹارٹ سرکاری گاڑی کے ٹائر اور بیٹری کو تبدیل کرکے اس کو کارآمد بنانے کے چکر میں گھن چکر بن کر رہ جاتے ہیں ،موجودہ مہنگائی کے اس دور میں 42000 سے لیکر 50000 اور65000 تک کی تنخواہ کا حامل پولیس اہلکار تھانے کے رنگ روغن سے، فرائزک سائنس لیبارٹری میں منشیات اور اسلحہ کے معائنے کیلئے آنے جانے کا خرچہ اپنی گرہ سے کرتا ہے یہی نہیںتھانے کی حدود سے ملنے والی نامعلوم ،نشئی،کی لاش کے پوسٹمارٹم سے لیکر اسکی تدفین کی ذمہ داری بھی سرکاری فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے اسکے فرائض میں شامل کردی جاتی ہیں جس کیلئے وہ علاقہ کے(صاحب حیثیت )افراد کی مدد طلب کرتا نظر آتا ہے۔تھانے کی سطح پر ماتحت افسران اور کانسٹیبلری کو درپیش ان تمام تر مسائل کو حل کرنے کے نام پر کی جانیوالی کرپشن کو کسی بھی صورت میں کی جائے وہ ہرگز قابل قبول نہیں مگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو تھانے کی سطح پر اس نوعیت کی روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی کرپشن میں محکمہ پولیس کا قصور نہیں ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے محکمہ پولیس کو اسی تناسب سے وسائل فراہم کئے جائیں، پولیس کی تنخواہ میں بھی 100 فیصد اضافہ کیا جائے تو پھر کوئی اسکے بعد کرپشن کرے تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن