• news
  • image

کیا پاکستان سانحات کی سرزمین ہے؟

مری سمیت پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلیات اور کشمیر میں مسلسل ہونے والی برفباری نے طوفان کی شکل اختیار کرلی جس سے سیاح شدید مشکلات کا شکار ہوئے اور 30 کے قریب لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ماضی میں ایسی تباہی کبھی سننے میں آئی نہ دیکھنے میں آئی۔مری میںاس برف کے طوفان کے ابتدائی 24 گھنٹوں کے دوران 17 انچ برفباری ریکارڈ کی گئی جسے 10 سالوں کے دوران ریکارڈ برفباری قرار دیا جارہا ہے جبکہ اگلے روز مزید برفباری سے موسم کی شدید صورتحال کے سبب مری میں نظامِ زندگی درہم برہم ہوکررہ گیا۔جمعہ اور ہفتہ کی شب سے ایک لاکھ گاڑیاں مری میں پھنسی ہوئی تھیں۔پہلے روز جن میں سے 19 افراد کی گاڑیوں میں ہی اموات ہوئی ہیں۔ان لوگوں میں کئی نے سردی سے بچنے کیلئے گاڑیوں کے ہیٹر چلائے اور سوگئے اور پھر ان کی آنکھ نہ کھل سکی۔ شہر سے متعدد دل دہلا دینے والے مناظر سامنے آتے رہے جس میں کوئی گاڑیوں میں پھنسے افراد کو اپنی مدد آپ کے تحت نکالنے کی کوشش کررہا ہے تو کہیں گاڑیاں کئی فٹ برف کے نیچے دھنسی ہوئی دکھائی دیں۔ حکومت کی طرف سے فوری طور پر فوج کو طلب کیا گیا جس سے صورتحال بہتر تو ہوئی مگر اس وقت تک اتنا نقصان ہوچکا تھا جس کی تلافی ناممکن ہے۔اْدھر وزیراعظم عمران خان نے سانحہ مری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔شدید طوفان کے آنے تک ایک لاکھ 68ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہو چکی تھیں جبکہ سرکاری طور پر مری اور گلیات میں صرف 34سو گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ موجود ہے۔دوسرا نکتہ یہ نظر آتا ہے کہ ان ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں میں سے ایک ہزار گاڑیاں بھی ایسی نہیں تھیں جنہوں نے مری آنے سے قبل اپنے سمر ٹائر کو ونٹر ٹائر سے چینج کیا ہواور میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ 99فیصد گاڑیوں کے ریڈی ایٹر میں ڈسٹل واٹر نہیں تھااور 90فیصد سیاح گھروں سے صرف چادریں لیکر نکل آئے تھے جبکہ منفی 7.8ڈگری جانے سے پہلے سیاحوں کے پاس مطلوبہ گرم ملبوسات نہیں تھے۔گلیات سیاحوں کیلئے دلکشی کا مکمل سامان رکھتی ہیں۔ہم پاکستانیوں کو سیاحت کا شوق تو ہے مگر سیاحت کیلئے جو لوازمات اور ضروریات درکار ہوتی ہیں ان پر غورنہیں کیا جاتا۔لاہور ،پشاور، ملتان اور دیگر شہروں سے اپنی گاڑیوں یا ٹور اپریٹرز کے ذریعے مری اور کشمیر کا رخ کرلیا۔راستے اور منزل پر پہنچ کر ہر سہولت کی دستیابی کا یقین ہوتا ہے۔ہوٹل کی بکنگ کی گئی ہوتی ہے وہاں پہنچ کر بھی ہوٹل مل سکتے ہیں بس پاس پیسہ ہونا چاہئے مگر پیسہ ہروقت اور ہر جگہ کام نہیں آتا۔ٹورسٹ کو نہ صرف مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے بھی وہ ذہنی طور پر تیا ہوتا ہے۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مرنے والوں میں ایک بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جسے سیاح کہا جاسکتا ہے۔یہ نہیں کہ سیاح مر نہیں سکتا۔وہ بھی حادثات کا شکار ہوسکتا ہے مگر موسم کی شدت سے کبھی کوئی سیاح نہیں مرتا کیونکہ اس نے اپنا پورا بندوبست کیا ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔تحقیقات سے کیا نئی چیز سامنے آسکتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔لوگوں کو موسم کی شدت کا اندازہ نہیں تھا۔انتظامیہ کو تو پتہ تھا۔ہفتے کے روز مری کو جانے والے سارے راستے بند کردئیے گئے یہی کچھ ایک روز پہلے کرلیا جاتا تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا۔
حکومت سیاحت کو فروغ دے رہی ہے اسکی بجا طور پر ستائش کی ضرورت ہے۔اسکے ساتھ ساتھ حکومت کو سیاحت کے حوالے سے آگاہی مہم بھی چلانی چاہئے۔ خود سیر کیلئے جانیوالے لوگوں کو بھی مکمل بندوبست کرنا چاہئے۔سیاحتی مقامات کے مکینوں میں سے اکثر کی روٹی روزی کا ذریعہ یہی لوگ ہیں جو دنیا بھر سے آتے ہیں۔عمومی طور پر مقامی لوگوں کے رویے سنگ دلی والے ہوتے ہیں۔اچھے لوگ بھی موجود ہیں جبکہ چمڑی ادھیڑنے والوں کی اکثریت ہے۔جن علاقوں میں لوگ پھنسے ہوئے تھے ان میں مقامی لوگ بغیر لالچ کے سامنے آتے تو اس قدر تباہی نہ ہوتی۔عام دنوں میںانسانیت کی تذلیل، رسوائی اور پستی اگر دیکھنی ہو تو آپ کو اسرائیل جانے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے ’’مری‘‘ کے باسیوں نے بھی انسانیت سوز نقوش چھوڑے ہیں اور پاکستان بھر سے ثمر اور ونٹر کے موسموں میں آنے والے لاکھوں سیاح ہر سال مری اور نواح کے باسیوں کی ’’ہٹلرگردی‘‘ کا شکار ہوتے ہیں سیاحوں سے نہ صرف پیسے چھینے جاتے ہیں سادہ پانی کی بوتل دو سو سے پانچ سو ،بوسیدہ ہوٹل کے کمرے کا کرایہ بارہ ہزار سے بیس ہزار روپے اور نان روٹی کم از کم پچاس روپے کی فروخت ہو رہی ہے اور اکثر سیاحوں کی ریسٹورنٹ مالکان کے ہاتھوں پٹائی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔حکومت نے اب ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا ہے لیکن پاکستان کی سیاست یہ ہے کہ آج تک کسی بھی تحقیقاتی کمیشن اورکمیٹی کی نہ تو رپورٹ سامنے آتی ہیں اور نہ ہی اسکے کوئی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ حکومتی وزراء بغیر سوچے سمجھے بیانات داغ رہے ہیں اور اپوزیشن بھی ہر سانحے کے موقع پر پوائنٹ سکورنگ کرتی ہے۔نہ جانے ہم کب ایک قوم بنیں گے اور ہماری سوچ اجتماعی ہو گی؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن