• news
  • image

ایچ ای سی ایکشن کیوں نہیں لیتا ؟

کردار تب بنتا ہے جب اُسکی تربیت سا زی کی جاتی ہے۔ اِس ضمن میں تعلیم سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اعلیٰ تعلیمیا فتہ، ذہین و فطین اور تربیت یافتہ اسا تذہ تعلیم کے ذریعے نئی نسلوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور معا شرے میںایک ایسی نسل کا بیج بوتے ہیں جو کسی بھی قوم کے عروج اور کامیابی و ترقی کا سبب بنتی ہے لیکن ہمارے معا شرے میں اخلاقی گرا وٹ، جھوٹ، بد دیانتی، مکربازی، رشوت اور سفا رش نے کچھ اس طرح اپنے پنجے گا ڑے ہیں کہ زندگی کا کو ئی شعبہ اس دلدل سے نہیں بچا۔ تعلیم کے میدان میں بھی محض ڈگری دیکھی جاتی ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ ڈگری کیسے حا صل کی گئی ہے۔ نقلیں مار کر، رشوت دیکر، سفا رش کر کے یا جعلسازی کے ذریعے ڈگری حا صل کی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں خوشامد اور چا پلوسی، رشوت سفارش اور پی آر شپ کامیابی ترقی اور بلندیوں کیلئے سند سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے علم، قا بلیت، ذہانت اور محنت سے ملک و قوم کو اوجِ کمال تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں ذہانت اور قا بلیت سے دوسرے لوگ خا ئف ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو منظر سے ہٹا نے کی کو ششیں کی جاتی ہیں۔ نالائق، نا اہل، کام چور اور کمپلیکس کے مارے ہو ئے لوگ قاِبل لوگوں کیخلاف کام کرتے ہیں اور انھیں کسی بھی حا لت میں آگے نہیں آنے دیتے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے حکومت نے ایچ ای سی کو مقرر کر رکھا ہے مگر ہماری سرکاری اور پرائیویٹ درسگا ہوں میں وہ طوفان برپا ہیں اور سفا رشوں، رشوتوں، اقربا پروریوں اور چا پلوسیوں کا بازار گرم ہے جس کے اثرات ہماری سماجی سیا سی اخلاقی دینی اور دینوی زندگی میں بھونچا ل لا رہے ہیں۔ ہماری یو نیورسیٹیوں میں اسقدر جعلسا زیاں جاری ہیں اور ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جا رہی ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوںمیں جو مرضی پڑھا دیا جاتا ہے۔ وہاں لاکھوں روپے دیکر آپ کو ئی بھی ڈگری لے سکتے ہیں۔ ایم فلِ، پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ڈگریوں کیلئے جو کلاس ورک اور تھیسز ہو تے ہیں۔ انکا معیار بھی انتہا درجے کا پست ہو تا ہے اور زیادہ تر مقا لے مکھی پہ مکھی مارنے کے برا بر ہیں۔ یہ مقا لہ جات گریجویشن کے لیول کے ہو تے ہیں۔ چربے کا رجحان غا لب رہتا ہے۔ اسکی بڑی وجہ حقیقی اسا تذہ کی کمی ہے۔ ایچ ای سی کی ہی رپورٹ کیمطا بق پاکستانی یو نیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اسا تذہ کی شدید کمی ہے۔ 228پی ایچ ڈی پروگرامز بند کر دئیے گئے ہیں جبکہ چار ہزار سکالرز بیروزگار ہیں۔پاکستان کی تقر یباً سبھی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اسا تذہ کی شدید قلت ہے۔ رپورٹ کے مطابق 869میں سے 228پرو گرامز میں اساتذہ طلبہ کا تنا سب مکمل نہیں ہے۔ پنجاب یو نیورسٹی میں پی ایچ ڈی پرو گرامز لے لیے 953اساتذہ کی ضرورت ہے مگر وہاں 662 اسا تذہ ہیں۔ 291 اسا تذہ کی اشد ضرورت ہے۔ یونیورسٹی آف بلوچستان میں168 اسا میاں خا لی ہیں۔ فیڈرل اردو یونیورسٹی سندھ میں  121اساتذہ کی آسامیاں خا لی ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی میں37 اسا تذہ کی ضرورت ہے۔ غازی یونیورسٹی ڈیرہ غا زی خان میں189 جبکہ با چا خان یونیورسٹی میں 60 پی ایچ ڈی اسا تذہ کی آسا میاں خا لی ہیں۔ ایچ ای سی نے دیگر یو نیورسٹیوں کے بھی اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سو سے زا ئد یو نیورسٹیوں میں کم از کم ایک ہزار سے زا ئد پی ایچ ڈی اسا تذہ درکار ہیں۔ سرکاری یو نیورسٹیوں سے زیادہ پرا ئیویٹ یو نیورسٹیوں میں طلبہ و طا لبات ڈگری پرو گرامز کر رہے ہیں جن کی تعداد ہزا روں میں ہے۔ سرکاری اور پرا ئیویٹ یو نیورسٹیاں پیسے بچا نے کی خا طر وزٹینگ فیکلٹی کو ترجیح دیتے ہیں۔ وزٹینگ پرو فیسرپڑھانے اور کسی یونیورسٹی میں اپنا پارٹ ٹا ئم جاب جاری رکھنے کی خا طر جان مار کر پڑھاتے ہیں اور یونیورسٹی کی تمام شرا ئط کو پو را کرتے ہیں مگر اُن کو اسقدر شرمناک معا وضہ دیا جاتا ہے اور اکثر بڑی بڑی یو نیورسٹیاں اُنکا خون نچوڑنے اور دو پروفیسروں جتنا کام لینے کے با وجود اُن کا معا وضہ سمیسٹر ختم ہو نے کے بعد بلکہ ایک سال بعد ادا کرتی ہیں۔ یہی نہیں انتہا ئی معمولی معا وضہ کی ادا ئیگی کے وقت ٹیکس کے علاوہ بہت زیادہ گھپلے کرتی ہیں۔ بیک وقت دو کلاسیں پڑھوا تے ہیں اور ادا ئیگی کرتے وقت اانتہائی جعلسازی کر کے آدھے سے بھی کم پیسے دیتے ہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں عموماً پی ایچ ڈی اسا تذہ کی مطلوبہ تعداد آدھے سے بھی کم ہو تی ہے مگر ہر سال سینکڑوں طلبہ کو ڈگریا ں جا ری کر دی جاتی ہیں۔ انہی طلبہ و طا لبات سے ایک ایک سمیسٹر کے لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ پی ایچ ڈی پرو گرامز جو آٹھ نو سال پر مبنی ہو تے ہیں اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حا صل کرنے میں ایک طالبعلم کو تقریباً زندگی کے 24یا 25سال حصولِ تعلیم پر وقف کرنا پڑتے ہیں جس میں اُسے مسلسل پچیس سال پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اُسکے بعد بھی جاب یا کو ئی اہم عہدہ نہیں دیا جاتا۔ خصو صاً یو نیورسٹیاں جو ایچ ای سی کے دا ئرہ کارمیں آتی ہیں۔ اُنہیں پا بند کر نا چاہیے کہ وہ پی ایچ ڈی ہو لڈرز کی شرا ئط پو ری کریں۔ انہیں ریگولر جاب دیں اور اگر وزٹینگ فیکلٹی رکھنی ہے تو ریگولر سٹاف کے برابر معا وضے ادا کریں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن