پرویز خٹک کا سخت موقف سیاسی خدوخال واضح کرنے کیلئے کافی
تجزیہ:محمد اکرم چودھری
اسلام آباد اور لندن میں سیاسی کھلاڑی متحرک ہیں، دروازوں کے پیچھے سب ایک دوسرے کو گرانے کے لیے حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے غیر سیاسی مشیر بھی ممکنہ طور پر نئی سیاسی صف بندیوں میں بڑھ کر مشورے دے رہے ہیں۔ لندن والوں کو اس حالت تک پہنچانے والے بھی ایک مرتبہ پھر میدان میں ہیں۔ پرویز خٹک نے عوامی موقف اختیار کیا ہے، چونکہ ان دنوں سیاسی کھیل میں بہت سی چیزیں غیر معمولی انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں، پاکستان کی سیاست میں مخصوص اوقات میں سیاسی کھلاڑیوں کے الفاظ، لب و لہجہ بہت معنی رکھتا ہے یوں ہمارے سیاسی حالات کے پیش نظر پرویز خٹک کا سخت موقف سیاسی خد و خال کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پرویز خٹک کے بعد پارٹی کے اندر سے اور آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوں کیونکہ جب عوامی سطح پر جذبات حکومت مخالف ہوں، گورننس نام کی چیز نہ ہو، عام آدمی کی زندگی ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتی چلی جائے، حکومت کرنے والے کچھ سننے کے لیے تیار نہ ہوں تو پھر سیاسی کھلاڑی اپنے مستقبل کو بچانے کی کوششیں شروع کرتے ہیں۔ پرویز خٹک کے خیالات کو اس پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے لیے بھی یہ صورتحال لمحہ فکریہ ہے لیکن شاید وہ بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ گذشتہ ڈھائی برس سے انہی صفحات پر حکومت کی غلط حکمت عملی اور غلط فیصلوں کی نشاندہی کر رہا ہوں اور اکتوبر دو ہزار انیس میں عام پاکستانی کی حیثیت سے عوام کا کیس وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھا تھا بدقسمتی سے انہوں نے اس وقت اسے ذات پر تنقید سمجھا اگر دو ہزار انیس میں اسے عوامی موقف سمجھا ہوتا تو آج پورا پاکستان اور پرویزخٹک یہ بات نہ کر رہے ہوتے، بہر حال بہت سا وقت گذر چکا ہے۔ اب سیاسی حالات ہر گذرتے دن کے ساتھ بہت تیزی سے بدل رہے ہیں لیکن تبدیلی کی ہوا چلی تو سیاسی جماعتوں کا موقف اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہو گا۔ کیونکہ جیسے حکومت چل رہی ہے ایسے ملک کے مسائل میں اضافہ ہو گا۔ اور جیسے مختلف سیاسی جماعتیں چلنا چاہتی ہیں شاید اس راستے پر بھی مشکلات ہیں۔ جہانگیر خان ترین کی پاکستان تحریکِ انصاف کے لوگوں میں بڑھتی ہوئی پسندیدگی بلاوجہ نہیں ہے، کراچی کے اراکین قومی اسمبلی سے جہانگیر خان ترین کی ملاقاتیں بھی بے معنی نہیں ہیں۔ جہانگیر ترین کی سیاسی مصروفیات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد ہو یا لندن سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ دونوں جگہ ہے۔ اس سیاسی کھیل کا نتیجہ کیا اور کب نکلتا ہے اس بارے حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت جاری سیاسی کھیل کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔