• news

منی بجٹ منظور ، اپوزیشن کا ہنگامہ

اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور ہنگامہ کے باوجود منی بجٹ، سٹیٹ بنک ترمیمی بل سمیت متعدد دیگر بلز کی کثرت رائے سے منظوری دے دی، ان بلوں کی منظوری کی تحاریک وزیر خزانہ شوکت ترین، مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان، پارلیمانی سیکرٹریوں نے پیش کیں، منی بجٹ کی بل کے بعد اپوزیشن نے سپیکر کی ڈائس کے سامنے احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کی۔ وزیرخزانہ شوکت ترین نے سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ میں ترمیم پیش کی جو اپوزیشن کے احتجاج اور نعروں کے گونج کے دوران منظور کرلی گئی، سٹیٹ بنک  ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے وقت اپوزیشن نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو کر لیا اور بل کی کاپیاں پھاڑ دیں، حکومتی ارکان نے وزیر اعظم کی نشست کو گھیر لیا،اس دوران اپوزیشن اور حکومت کے ارکان ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے شدید نعرے بازی کرتے رہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ گنتی کرائی جائے لیکن ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن کے مطالبے کو نظر اندازکر دیا اور بل پر رائے شماری جاری رکھی جس پر تمام اپوزیشن ڈپٹی سپیکر کے ڈائس کے سامنے نعرے بازی کرتی رہی، اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کی موجودگی میں گو نیازی گو اور حکومتی ارکان نے سارا ٹبر چور ہے کے نعرے لگائے، ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اسمبلی کا اجلاس آج جمعہ گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔ جن دیگر بلزکی منظوری دی گئی ہے ان میں پبلک پروکیورمنٹ ترمیمی بل، اسلام آباد ہیلتھ کیئر منیجمنٹ اتھارٹی کے قیام کا بل، اوگرا کے قانون میں دوترمیمی بل، الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل بل، ایس ای سی پی ترمیمی بل، گورنمنٹ سیونگز بینک ترمیمی بل، تحفظ والدین کا بل2021، پاکستان نرسنگ کونسل بل2021,،سرکاری حصول انضباطی اتھارٹی آرڈیننس میں ترمیم کا بل، یو نیورسٹی برائے انجینرنگ کے قیام کا بل، لوکل گورنمنٹ آرڈیننس،20121،نیشنل انفارمینشن ٹیکنالوجی بورڈ کے قیام کا بل شامل ہیں، قومی احتساب آرڈیننس کی معیاد میں توسیع کی منظوری دی گئی۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے جب مالیاتی ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا، اپوزیشن کی جانب شدید مخالفت کی گئی، اپوزیشن رہنمائوں شاہد خاقان عباسی، بلاول بھٹو زرداری، احسن اقبال، رانا تنویز، شازیہ مری سمیت دیگر اپوزیشن ارکان کی طرف پیش کی جا نے والی تمام ترامیم کو کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا، اپوزیشن کو ترامیم پر ووٹنگ کے موقع پر دو بار شکست کا سامنا کر نا پڑا، اپوزیشن کی ترامیم کے حق میں 150اور اس کی مخالفت میں 168ووٹ پڑے، اس موقع پر اپوزیشن نے اعتراض کیا، جس پر دوبارہ گنتی کی گئی تو ترامیم کے حق میں 146اور مخالفت میں163ووٹ پڑے۔،سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جہاں وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت دیگر شریک ہوئے۔وزیراعظم عمران خان آئے تو ایوان میں حکومتی اراکین نے ڈیسک بجا کر ان کا استقبال کیا البتہ اپوزیشن کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ شوکت ترین نے ضمنی بجٹ پیش کیا ہے، اس کی ضرورت پیش کیوں آئی، پاکستان کی تاریخ میں اتنے زیادہ ضمنی ٹیکسز کسی ضمنی بجٹ میں آج تک پیش نہیں کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فنانس بل پاس کرائے ہوئے6 مہینے ہوئے ہیں، کیا آپ کے سرمایے میں کمی آئی ہے یا اخراجات میں اضافہ ہوا ہے کہ عوام پر اضافی بوجھ لاد رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کون سی چیزیں مہنگی ہوں گی بس یہ بتادیں کہ کون سی چیزیں مہنگی نہیں ہوں گی کیونکہ اس بل کے بعد مزید مہنگائی آئے گی، پیٹرول بھی 4 روپے ماہانہ بڑھ رہا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ بجلی کے بل بھی بڑھ رہے ہیں، 4 روپے 60 پیسے کا اضافی فیول ایڈجسٹمنٹ بھی اضافہ اس لیے ہے کہ ہم نے گیس نہیں لی اور تیل سے مہنگی بجلی بنا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہوں نے جو ترمیم متعارف کرائی ہے اس میں خام تیل اور درآمدی اشیا پر متعلقہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے، میرا وزیر خزانہ سے سوال ہے کہ کیا انہوں نے یہ بات مان لی ہے؟ انہوں نے خود کہا کہ وہ کچھ ٹیکس واپس لے رہے ہیں۔ بلاول نے کہا کہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے معاملات کو مزید خراب کیا حالانکہ وہ پہلے بھی ملک کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شوکت ترین کہتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ منی بجٹ پر شور و غل کیوں ہے، ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کراچی کی سڑکوں پر جائیں اور لوگوں سے ان کی معاشی صورتحال کے بارے میں پوچھیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کراچی کے چند اراکین اسمبلی نے ترامیم پیش کیں اور منی بجٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا، انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ فنانس بل کو مسترد کریں اور ملک کو معاشی صورتحال سے نکالنے کے لیے اپوزیشن کا ساتھ دیں۔ وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ ہمیں جب ضم کیا جا رہا تھا تو جو وعدے ہمارے ساتھ کیے گئے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں کیے گئے، پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ ہم نے یہ ترمیم پاکستان میں کاروبار اور صنعتی ریل پیل کو بڑھانے کے لیے تجویز کی ہے، کسٹمز ایکٹ پہلے بینک گارنٹی دی جاتی تھی لیکن اب اس کی جگہ کارپویٹ گارنٹی مانگ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ امپورٹر کے کیش فلو پر اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ پرانا نظام ہی رہنے دیتے تو بہتر تھا، ہم جانتے ہیں کہ آپ درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس قسم کی درآمدات خام مال پر اثر ڈالے گا لہذا حکومت اس سے دستبردار ہونے پر نظرثانی کرے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اور دیگر اراکین نے پوچھا کہ یہ بل کیوں لے کر آ رہے ہیں تو میں انہیں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میں جب آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ ان پٹ اور آؤٹ پٹ میں توازن لائیں، اگر آپ نہیں کریں گے تو جی ایس ٹی پورا نہیں ہو گا، ہم اس کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری 18 سے 20 کھرب کی ریٹیل سیلز ہیں، اس میں سے صرف ساڑھے تین کھرب کو دستاویزی شکل دی جاتی ہے، جب بھی دستاویزی شکل دینے کی بات کی جاتی ہے تو شدید واویلا مچ جاتا ہے کیونکہ سب نے بندر بانٹ کی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 343 ارب میں سے 280 ارب ری فنڈ ہوجانا ہے اور بقیہ صرف 71 ارب رہ جاتا ہے تو یہ ٹیکس کا طوفان نہیں بلکہ اس کو دستاویزی شکل دینا ہے لیکن اس سے سب بھاگتے ہیں کیونکہ ان کی آمدن کو دستاویزی شکل دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں آمدن اور کھپت پر ٹیکس لگایا جاتا ہے لیکن یہاں انکم پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا اور وہ اس لیے نہیں ہورہا کیونکہ یہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آ رہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ انہوں نے کیا طوفان مچایا ہوا ہے کہ غریب کو کیا ہو جائے گا، یہ دودھ اور ڈبل کی بات کررہے ہیں لیکن ہم نے ان پر سے ٹیکس ختم کردیا ہے، ہماری حکومت تو صرف تین سال سے ہے، پچھلے 70سال سے کیا ہوا ہے، جی ڈی پی کی مناسبت سے ٹیکس کب 18 سے 19فیصد پر گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم ٹیکس کو 18 سے 19 فیصد نہیں کریں گے اس وقت تک 6 سے 8 فیصد شرح نمو نہیں دکھا سکتے، یہ سب جانتے ہیں لیکن شتر مرغ بنے ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ملک کی معاشی خودمختاری اور قومی سلامتی قربان کر رہی ہے حالانکہ وہ تقریباً 13 بار آئی ایم ایف کے پاس گئے، تو کیا انہوں نے ہر بار ہماری معاشی خودمختاری کو ختم کیا؟۔ اس بات پر بلاول بھٹو نے ایک بار پھر وفاقی وزیر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جو وعدے کیے تھے ان سے پیچھے نہیں ہٹے، لیکن نہ وزیر خزانہ اور نہ ہی وزیر اعظم اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں، تین سال سے زائد ہو چکے ہیں اور اگلا سال الیکشن کا ہے، یہ وقت تو الیکشن سے قبل عوام کو اپنی کامیابیاں دکھانے کا تھا۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ آپ کی کامیابی کیا ہے؟ دی اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے، خطے میں سب سے مہنگا ہے، مہنگائی دوہرے ہندسوں تک پہنچ گئی ہے اور قرض اور جی ڈی پی کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ کچھ ہے جو نیا پاکستان نے ہمیں دیا ہے۔اس کے بعد فنانس بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا لیکن اپوزیشن کی دیگر ترامیم کو اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کردیا گیا۔احسن اقبال اور اسپیکر اسد قیصر میں ایوان میں گنتی کے معاملے پر بحث ہوئی لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے دوبارہ گنتی کرانے سے انکار کردیا۔ احسن اقبال دیگر اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو ووٹنگ کی بنیاد پر مسترد کردیا گیا البتہ وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترامیم منظور کر لی گئیں۔ مسلم لیگ(ن)کے رانا تنویر نے ووٹنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر ترمیم کا معاملہ مختلف ہے، ہر ایک نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس ترمیم پر ووٹ دیتے ہیں یا نہیں۔ سابق سپیکر ایاز صادق نے بھی ووٹنگ نہ کرانے پر اعتراض کیا جس پر سپیکر نے جواب دیا کہ آپ کے دور کا ریکارڈ بھی نکال لیں گے۔ تاہم وزیر دفاع پرویز خٹک نے ایاز صادق کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ سپیکر تھے تو آپ نے کئی مرتبہ ووٹنگ کو بلڈوز کیا لہذا سپیکر صاحب آپ رولنگ دیں، ان کا کام وقت ضائع کرنا ہے، اس کے جواب میں ایاز صادق نے ریکارڈ نکالنے کا مشورہ دیا۔اپوزیشن کے مطالبے پر دوبارہ ووٹنگ کی گئی تو 146 اراکین نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا اور 163 نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا لہذا اپوزیشن کی ترمیم مسترد کردی گئی۔ رانا تنویر نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بنیاد ٹھیک کر رہے ہیں لیکن یہ کیسی بنیاد ٹھیک کررہے ہیں جو اپوزیشن اور حکومت دونوں میں سے کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ اپنے محکموں سے چوری اور سرحدوں پر ہونے والی کرپشن ختم کردیں تو اتنا ریونیو اکٹھا ہو گا کہ پچھلے ٹیکس ختم کرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا، اگر آپ ادھر توجہ دیتے تو منی بجٹ کی قیامت ڈھانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ دریں اثنا مجوزہ بل میں حکومت کی ترامیم کو ایوان نے کثریت رائے سے منظور کرلیا۔حکومت نے بل کی شق 3 میں تبدیلیاں کیں جس کے تحت چھوٹی دکانوں پر روٹی، چپاتیاں، شیرمال، نان، ورمیسیلی، بن اور پاپوں پر ٹیکس نہیں لگے گا، پہلی سطح کے ریٹیلر ٹیئر ون ریٹیلرز، ریسٹورنٹ، فوڈ چینز اور مٹھائی کی دکانوں پر ان اشیا کی فروخت پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔1800 سی سی گھریلو اور ہائبرڈ اور گھریلو کاروں پر 8.5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، 1801 سے 2500 سی سی ہائبرڈ گاڑیوں پر 12.75 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا جبکہ درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔دودھ کے 200 گرام کارٹن پر کوئی جنرل سیلز ٹیکس نہیں لگایا جائے گا جبکہ 500 روپے سے زائد کے فارمولا دودھ پر 17 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا جائے گا۔ترامیم کے تحت درآمدی گاڑیوں پر ٹیکس بھی 5 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے، تمام درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی یکساں رہے گی۔مقامی طور پر تیار کی جانے والی 1300 سی سی گاڑیوں پر 2.5 فیصد ڈیوٹی ہوگی جو پہلے تجویز کردہ 5 فیصد سے کم ہے، مقامی طور پر تیار کی جانے والی 1300 سے 2000 سی سی کاروں پر ڈیوٹی بھی 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی۔2,100 سی سی سے زیادہ مقامی طور پر تیار ہونے والی کاروں پر 10 فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس میں فنانس سپلیمنٹری بل(منی بجٹ)منظور کر لیا گیا۔وزیرخزانہ شوکت ترین نے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ میں ترمیم پیش کی جو اپوزیشن کے احتجاج اور نعروں کے گونج کے دوران منظور کرلی گئی۔بعد ازاں حکومت کی جانب سے مزید کئی بل پیش کیے گئے جو اکثریت کی حمایت سے منظور کر لیے گئے اور اس دوران وزیر اعظم عمران خان بھی موجود رہے تاہم طویل اجلاس میں مزید بل پیش کیے گئے۔ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اسمبلی کا اجلاس آج جمعہ گیارہ بجے تک ملتوی کردیا۔ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے بعض ارکان غیر حاضر رہے۔ 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) قومی اسمبلی نے ضمنی  فنانس سپلیمنٹری بل2021(منی بجٹ)کی کثرت رائے سے منظوری دے دی  وزیر خزانہ نے گذشتہ روز ضمنی فنانس بل میں بعض ترامیم پیش کیں جن کو ایوان نے کثرت رائے سے منظور کیا ان کے تحت ڈبل روٹی  نان ، شیر مال ،دودھ  لیپ ٹاپ ، لال مرچ، آیوڈین نمک  پر ٹیکس کو واپس لے لیا گیا، حکومت نے اس بل کے ذریعے مختلف شعبوںکودستیاب 343 ارب روپے کے ٹیکسوں ڈیوٹیوں کی چھوٹ اور رعایات ختم کر دیں، درآمدی گاڑیوں اور موبائل فونز پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، فنانس ترمیمی بل  میں ترمیم کے ذریعے بچوں کے 500روپے تک کے 200گرام کے دودھ کے ڈبے پر جی ایس ٹی کو واپس لے لیا گیا جبکہ اس سے زائد قیمت کے ڈبے پر 17فیصد جی ایس ٹی رہے گا، پولٹری کے ان پٹ پر جی ایس ٹی کو برقرار رکھا گیا ہے، مقامی 1300سی سی کی کار پر ڈیوٹی کو 5فیصد سے کم کر کے اڑھائی فی صد کیا گیا ہے ،2001 سی سی  سے زائد قوت کی گاڑیوں پر ٹیکس 10فی صد کر دیا گیا، سیلز ٹیکس ایکٹ1990میں متعارف کروائی گئیں ترامیم کے تحت ملک کی گھریلو صنعتوں کی ترقی کیلئے کاٹیج اندسٹری کیلئے جنرل سیلز ٹیکس کی شرح10فیصد سے کم کر کے8فیصد کر دی گئی ہے سیلز ٹیکس ایکٹ کے پانچویں شیڈول میں کی گئی ترامیم کے تحت ڈیوٹی فری شاپس سے قواعد سے ہٹ کر نکالی جانے والی اشیاء  پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کوختم کردیا گیا ہے سیکشن6Aکے تحت پاکستان میں بنائی جانے والی مشنری، پلانٹس،  آپریٹس، ایپالائینسسز، ایکویپمنٹس، مکینیکل اور الیکٹریکل کنٹرول ٹرانسمیشن گیئر،  مشینری کے پارٹس، قواعد سے ہٹ کر سیکشن13کے تحت ہونے والی برآمدات، ملکی مینو فیکچررز کو خام مال کی سپلائی  اور شپنگ کے صنعت کو فراہم کئے جانے والے پارٹس پر جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے تن سازی  بھی شامل ہیں اور انہیں میڈی کمینٹس کے نام سے پکارا جاتا ہے پر جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے اس پر17فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے   ڈیجیٹل فارم میں فروخت ہونے والے قر آن پاک، اخبارات اور جرائد کیلئے سپلائی ہونے والی کاغذ، نیوز پرنٹ،  نئے کرنسی نوٹس ، بینک نوٹس،  سٹاک مارکیٹ کے حصص اور پرائز بانڈ کی سپلائی،  سونے کی پلیٹس،  پیکٹوں میں بند مرغی کا گوشت اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات،  کاٹن سیڈ،  درآمدی اشیاء  بنائی جانے والی بچوں کی خوراک،  سلائی مشینیں،  ایکسپورٹ پراسیسینگ زون بنانے والی صنعت  کو فراہم کئے جانے والے100اقسام کے تعمیراتی سامان ، بحری جہازوں کی درآمد اور ملک میں سپلائی،  ادویات کے خام مال کی تیاری کیلئے درآمد کئے جانے والے ایکٹیو انگریڈئینٹس،  حلال مویشیوں کے گردے، کلیجی، مغز اور ایسی ہی دیگر مصنوعات، الیکٹرانک سرکٹ،  پلاسٹک کیپ،  بیس کیپ،  ٹنسگسٹن فلمنٹ،  لیڈ وائر،  فلورو سینٹ پاوڈر،  ٹرائی براڈ فاسفورس،  ایڈہیسو ٹیپ، آل اکسائیڈ سسپینشن ، کیپنگ سیمنٹ،  سٹیمپ پیڈ ،  کارڈیالوجی، سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کے 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائدکر دیا گیا ہے، ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ کیلئے ٹریکٹروں کی تیاری کیلئے  درآمدکئے جانے والے سامان، روڈ ٹریکٹرز، سیمی ٹریکٹرز،  الیکٹرک بسوں، تین وہیلرز رکشہ، تھری وہیلرزالیکٹرک لوڈر، الیکٹرک ٹرک،  الیکٹرک موٹر سائیکل کی درآمد پر بھی جنرل سیلز ٹیکس کی چھوٹ 1فیصد تک محدود کر دیا گیا ہے ، ملک میں تیارہونے والی الیکٹرک گاڑیوں، روڈ ٹریکٹرز، سیمی ٹریلرز، الیکٹرک بسوں، الیکٹرک تھری وہیل رکشہ،  تھری وہیل الیکٹرک لوڈر،  الیکٹرک ٹرک، الیکٹرک موٹر سائیکل پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم کر کے1فیصد کر دی گئی ہے ،  1800سی سی سے زائدہائی بریڈ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمدات  اور لوکل سپلائی پر12.5فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، درآمدی موبائل فونز پر ٹیکسوں میں اضافہ منظورکر لیا گیا ،پاکستان میں ڈرامہ بنانے یا ایڈورٹزمنٹ بنانے والے غیر ملکی فنکاروں کی آمدن پر بھی انکم ٹیکس ود ہولڈ  ہو گا  گاڑیوں میںسرمایہ کاری کر کے فوائد اٹھانے کی حوصلہ شکنی کیلئے1000سی سی تک کی گاڑیوں پر1لاکھ روپے، 1001سی سی زائد لیکن2000سی سی تک کی گاڑیوں پر2لاکھ روپے، 2001اور اس سے زائد انجن قوت کی گاڑیوں پر4لاکھ روپے انکم ٹیکس عائد کر دیا گیا  ملک کے اندر تیار ہونے والی ڈبل کیبن گاڑیوں کی درآمد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 7.5فیصد سے بڑھاکر10فیصد کر دی گئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن