جمعۃ المبارک ، 10 جمادی الثانی 1443ھ، 14 جنوری 2022ء
وفاقی وزیر خزانہ و محصولات شوکت ترین نے نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیمتوں میں معمولی اضافہ بارش اور دھند کے باعث رسد میں خلل آنے سے ہوا ہے۔
اسے کہتے ہیں ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘۔ جب مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکا تو سارا الزام بارش اور دھند پر ڈال کر مطمئن ہو گئے۔اس پر سبحان اللہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ بے بسی کا یہ عالم ‘ توبہ توبہ۔ بڑھتی مہنگائی کا سبب کبھی سابقہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کو بتایا جاتا ہے ‘ کبھی قوم کو یہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف سختی سے دیکھ رہا ہے‘ جب قوم اس پر بھی مطمئن نہ ہوئی تو سارا ملبہ بارش اور دھند پر ڈال دیا ۔ اعلیٰ سطح پر اس طرح غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائیگا‘ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ ممکن ہے اس بارش کے پیچھے بھی آئی ایم ایف کا ہاتھ ہو۔ حکومت جس طرح ہوا میں تیر چلا رہی ہے‘ اس سے عوام مطمئن ہرگز نہیں ہونگے۔ وزراء کی جانب سے انہیں پندرہ دن یا تین ماہ میں مہنگائی کے خاتمہ کی نوید تو سنائی جاتی ہے لیکن عملی طور پر ان پر ہر دوسرے تیسرے دن کبھی بجلی بم گرا دیا جاتا ہے تو کبھی پٹرول و گیس بم۔ ویسے وزیر خزانہ کی بات پر کسی حد تک یقین کیا جا سکتا ہے جس کا عملی ثبوت ہمیں مری میں برفباری کے باعث ہونیوالی مہنگائی سے ملا ہے۔ جب برفباری مہنگائی کو عروج پر پہنچا سکتی ہے تو معمولی بارش اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیوں نہیں کر سکتی۔ تھوڑی سی تُک بندی کی کوشش کے ساتھ ہم برسات سے یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ:
اے ابر کرم کہیں اور جا کے جم کے برس
یہاں برسنے سے تیرے، پکوان نہیں مہنگائی چڑھتی ہے
٭…٭…٭
معروف ٹک ٹاکر حریم شاہ کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کر دی گئیں‘ ٹک ٹاکر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’’مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
ٹک ٹاکر نے بھاری رقم کے ساتھ دوحہ سفر کیا‘ غیرملکی کرنسی برطانیہ لے جانے کا بھی اعتراف کیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ بیرونِ سفر پر جانیوالا غریب کا بال معمولی سی ایک چاکلیٹ بھی لے جا رہا ہو تو اسے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ کہیں اس چاکلیٹ میں بھر کر کوئی غیرقانونی چیز تو باہر نہیں لے جائی جا رہی ہے‘ جبکہ دوسری جانب بااثر افراد امیگریشن سے پورا ہاتھی گزار کر لے جاتے ہیں‘ لیکن انتظامیہ کونظر نہیں آتا۔ اگر یہ تتلیاں اسی طرح ملکی دولت باہر منتقل کرتی رہیں اور بااثر ہونے پر ان پر ہاتھ بھی نہ ڈالا گیا تو کچھ پیسہ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کی نذر ہو جائیگا اور باقی بچا کھچا یہ ہیروئنیں لے جائیں گی ۔تو پھر ملک کو دیوالیہ ہونے سے کون بچائے گا۔ پہلے سپر ماڈل ایان علی اس کارِخیر میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتی رہی ‘ اب یہ ٹک ٹاکر دھڑلے سے کہہ رہی ہیں کہ ’’جو کرنا ہے کرلو‘ مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ اس بیان سے تو لگتا ہے کہ اسکے پیچھے مسٹر ٹین پرسنٹ سے بھی زیادہ کوئی بااثر شخصیت ہے۔ یہ تو اب خفیہ والوں کا کام ہے کہ وہ کھوج لگائیں کہ کس پاورفل شخصیت کے بل بوتے پر یہ ٹک ٹاکر اتنے دعوے کررہی ہے۔ اگر ہمارے ملک میں اتنا ہی پیسہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کو بھی قسطوں کی مد میں ہم بوریاں بھر بھر کر دے رہے ہیں اور ہماری ہیروئنیں بھی مٹھیاں بھر بھر کے باہر لے جا رہی ہیں تو ملک میں پیسے کی ریل پیل ہونی چاہیے‘ غریب کہیں نظر نہیں آنا چاہیے‘ لیکن یہ ’’ہن‘‘ صرف ’’اصحابِ وسیلہ‘‘ پر ہی برس رہا ہے۔نہ جانے یہ منی لانڈرنگ کی لعنت ہمارے ملک سے کب ختم ہوگی۔ ہمارے کئی ہردلعزیز لیڈران بھی مبینہ طور پر اس لعنت میں مبتلا ہو گئے۔ جب تک قانون کاپورے دھڑلے کے ساتھ مذاق اڑانے والوںپر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا‘ اس لعنت کو روکنا ممکن نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے۔
٭…٭…٭
سعودی عرب میں اونٹوں کیلئے دنیا کا پہلا اوپن ایئر لگژری ہوٹل توجہ کا مرکز بن گیا۔
اونٹ عربوں محبوب ترین جانور تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بلی‘ کتے پالتو جانوروں کے طور پر گھروں میں رکھے جاتے ہیں جبکہ عرب ممالک میں اونٹ کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ گزرے وقتوں میں یہ جانور باربرداری کے علاوہ سواری کیلئے بھی آتا رہا ہے۔ ریگستانی علاقوں میں اونٹ آسانی سے نقل و حرکت کر سکتا ہے کیونکہ اسکے پائوں کی مخصوص بناوٹ اسے ریت میں دھنسنے نہیں دیتی۔ اسی لئے اسے ریگستان کا جہاز بھی کہا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں اوپن لگژری ہوٹل کی زیادہ تفصیلات تو نہیں معلوم‘ البتہ عربوں نے اپنے محبوب ترین جانور کیلئے اس ہوٹل کی تزئین و آرائش خوب کی گئی ہوگی ۔تتمان نامی اس لگژری ہوٹل میں ایک رات کا کرایہ 400 ریال سے زیادہ ہے۔ ایسی سرگرمیاں ان ممالک میں کی جاتی ہیں جہاں فکر نہ فاقہ‘ عیش کر کاکا‘‘ والا معاملہ ہو۔ چار سو ریال کے عوض اونٹ کی اس ہوٹل میں شب بسری پر اونٹوں کا تو معلوم نہیں کہ انہیں کتنی خوشی ہوئی البتہ انکے مالکان کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور انہیں تفریح طبع اور ’’رات بسری ‘‘ کا سنہری موقع مل جائیگا۔ اونٹ کی جبلت سے یہ لوگ بخوبی واقف ہونگے ‘ اسکی کینہ پروری کے باوجود وہ اسکے ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ بہرحال ایسے مہنگے ہوٹل میں اونٹ کو لے جانا ‘ویسے بھی خلافِ شرع نظر آتا ہے ۔ اسکی جبلت کے پیش نظر ہوٹل کی تزئین و آرائش کو برقرار رکھنا شاید ممکن نہ ہو لیکن ان عربوں کیلئے یہ معاملہ اونٹ کو ہمارے رکشہ میں بٹھانے کے مترادف ہوگا۔
٭…٭…٭
خبر ہے کہ ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کیلئے سگنل بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایسے فیصلے وہیں ہو سکتے ہیں جہاں مشیروں کی فوج ظفر موج ہو اور ان کا میرٹ سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ لو بتائو۔ دنیا بھر میں ٹریفک کا نظام ایک منظم سگنل سسٹم کے تحت کامیابی سے چل رہا ہے‘ جس سے ٹریفک کی روانی میں بہتری آئی ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں یہ گنگا الٹی بہنا شروع ہو رہی ہے وہ بھی آج کے جدید دور میں۔ سگنل جیسے جدید نظام کو چھوڑ کر اب وارڈن بیچ چوراہے میںکتھک ڈانس کرکے ٹریفک کنٹرول کریگا۔ دنیا چاند سے آگے جانے کا سوچ رہی ہے‘ ہم واپسی کا گیئر لگا رہے ہیں۔ اس کی کیا منطق ہے‘ یہ تو فیصلہ کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ انتظامی امور چلانے والے اپنی حکمت اور تدبر سے قوم کیلئے راستہ بناتے ہیں‘ جس پر چل کر قوم ترقی کرتی ہے۔ ہماری ٹریفک پہلے ہی بے راہروی کا شکار ہے‘ اب اسے سگنل فری کرکے ٹریفک جام کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔ ہم اکثر سوچتے تھے کہ ہم مغرب کی تقلید کرتے ہیں‘ وہ ہمارے پیچھے کیوں نہیں آتے۔ اس فیصلے سے اب اس سوال کا جواب کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ہمارے ہاں ٹریفک سگنل توڑنا معیوب تو درکنار‘ اسے اپنا استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ وارڈرن کے روکنے پر ہزارہا عذر پیش کئے جاتے ہیں۔ جب انہیں سگنل کی پابندی سے ہی آزاد کر دیا جائیگا تو انکے لچھن دید کے قابل ہونگے۔