سلامتی پالیسی سے قوم کا قبلہ درست کیا ، عمران: تحفظ میں مدد گار ہوگی : جنرل باجوہ
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ معیشت کو کبھی قومی سلامتی کے تناظر میں نہیں دیکھا گیا، صرف ایک شعبے کی ترقی سے ملک میں خوشحالی نہیں آ سکتی، آئی ایم ایف کے پاس جائیں تو کسی نہ کسی شکل میں سکیورٹی بھی کمپرومائز ہوتی ہے، قیام پاکستان سے لے کر آج تک قومی سلامتی کو درست طریقے سے بیان نہیں کیا جا سکا، پہلی بار قومی سلامتی پالیسی کے ذریعے قوم کا قبلہ درست کیا گیا ہے۔ وہ گزشتہ روز پہلی قومی سلامتی پالیسی کے عوامی ورژن کے اجرا کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس حوالے سے جمعہ کو وزیراعظم آفس میں تقریب ہوئی۔ تقریب میں سپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزرائ، قومی سلامتی کے مشیر، ارکان پارلیمنٹ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تمام سروسز چیفس، سینئر سول و فوجی حکام، ماہرین، تھنک ٹینکس، میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ان کی حکومت کی اولین ترجیح تھی، وزیراعظم نے یہ ہدف حاصل کرنے پر قومی سلامتی کے مشیر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی۔ انہوں نے پالیسی پر کامیاب عمل درآمد کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اعلان کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی باقاعدگی سے اس پر پیش رفت کا جائزہ لے گی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ قومی سلامتی پالیسی 2022-2026کا محور حکومت کا وژن ہے جو یقین رکھتی ہے کہ ملکی سلامتی کا انحصار شہریوں کی سلامتی میں مضمر ہے، کسی بھی قومی سلامتی پالیسی میں قومی ہم آہنگی اور لوگوں کی خوشحالی کو شامل کیا جانا چاہئے جبکہ بلاامتیاز بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کی ضمانت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اپنے شہریوں کی وسیع صلاحیتوں سے استفادہ کیلئے خدمات پر مبنی اچھے نظم و نسق کو فروغ دینا ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہماری مسلح افواج، ہمارا فخر ہیں۔ خطے میں ہمیں درپیش خطرات اور ہائبرڈ وار کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے تناظر میں انہیں ہماری طرف سے بڑی اہمیت اور حمایت حاصل رہے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک کا دفاع کرنے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کروں گا، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز نے قربانیاں دیں۔ ایسے مسلم ممالک کو دیکھ سکتے ہیں جو اپنی سکیورٹی کا دفاع نہ کرسکے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی کا بڑا مقصد خطے اور خطے سے باہر امن و استحکام رہے گا، ہماری خارجہ پالیسی میں جاری معاشی خارجہ پالیسی پر مزید توجہ مرکوز کی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف جانا پڑتا ہے، آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو قرض ملتا ہے مگر شرائط ماننا پڑتی ہے ، آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کی وجہ سے لوگوں پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے اور کہیں نہ کہیں سکیورٹی متاثر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم کے تین نظام چل ر ہے ہیںجس کے باعث بہت بڑے منفی نتائج کا سامنا ہے ، پہلی بار ملک میں 5ویں جماعت تک یکساں تعلیمی نصاب لائے ہیں۔ قانون پر عملدرآمد پاکستان کیلئے سب سے بڑاچیلنج ہے۔ سوئٹزرلینڈ قانون کی بالادستی کی بدولت سیاحت میں اوپر چلاگیا، ہر ملک میں ریگولیٹر ہوتے ہیں جو عوامی مفاد میں کام کرتے ہیں، تمام ریگولیٹرز کو بلا کر بات کی انہیں صورتحال سے آگاہ کیا، ریگولیٹرز کو کارٹیلز نے کام کرنے سے روک دیا۔ غیرملکی سرمایہ کار پاکستان کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں کرتے، پاکستان میں سرمایہ کاری کے اتنے مواقع ہیں کہ پوری دنیا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ غیرملکی اور ایکسپورٹرز کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم عمران خان سے معاونِ خصوصی برائے سیاسی امور و چیف وہیپ ملک عامر ڈوگر نے ملاقات کی۔ ملاقات میں جمعرات کو منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی قانون سازی پر گفتگو کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم نے ملکی ترقی کیلئے پارلیمنٹ کے کردار کو مضبوط کرنے اور موثر قانون سازی کی اہمیت پر زور دیا۔
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف نے ملاقات کی ہے جس میں قومی سلامتی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی۔ ملاقات وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہوئی۔ اہم ترین ملاقات میں قومی سلامتی پالیسی، ملکی داخلی وسکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاوہ ازیں قومی سلامتی پالیسی کے اجراء کی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ملٹری سکیورٹی قومی سلامتی کا صرف ایک پہلو ہے۔ قومی سلامتی کے تمام پہلوئوں پر مشتمل جامع پالیسی کی تشکیل زبردست اقدام ہے، یہ دستاویز قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، وزیرداخلہ شیخ رشید احمد، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم سمیت اہم دفاعی حکام شریک ہوئے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں ملکی سکیورٹی اور افغانستان سے متعلق امور پر مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغان عوام کو انسانی بحران سے بچانے کے لئے ہر قسم کی امداد فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے افغان عوام کی امداد کے لئے اپیل جاری کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اپیکس کمیٹی نے ایک بار پھر افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان افغانوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ کمیٹی نے عالمی برادری اور امدادی اداروں سے دوبارہ اپیل کی کہ وہ اس نازک مرحلے پر افغانستان میں معاشی تباہی کو روکنے اور قیمتی جانوں کو بچانے کے لیے امداد فراہم کریں۔ وزیراعظم نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ دوست ممالک کے ساتھ رابطے بڑھا کر باہمی تعاون کے مواقع تلاش کریں اور خاص طور پر میڈیکل، آئی ٹی، فنانس اور اکائونٹنگ کے شعبوں میں قابل اور تربیت یافتہ افرادی قوت کو افغانستان بھجوایا جائے تاکہ بحران پر قابو پایا جا سکے۔ وزیراعظم نے حکام کو افغانستان کی بحالی اور ترقی میں مدد کے لیے ریلوے، معدنیات، دواسازی اور میڈیا کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی بھی ہدایت کی۔ اعلامیہ کے مطابق قبل ازیں ایپکس کمیٹی کو افغانستان کے لئے انسانی امداد کی مد میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ اب تک افغان عوام کے لئے پانچ ارب روپے مالیت کی غذائی اجناس بھجوائی جا چکی ہیں۔