بھارت فرقہ ورانہ تصادم کے انتہائی نازک مرحلے میں داخل‘ قتل عا م کا خدشہ
اسلام آباد (اے پی پی) بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی قیادت میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر مظالم ڈھانے کے مطالبے کے بعد بھارت فرقہ ورانہ تصادم کے انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ بھارتی اور غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس مسلمانوں اور دلتوں پر تشدد ، گرجا گھروں کی تباہی، علما کا مذاق اڑانا، کارکنوں کو حراست میں لینے، فلمی ستاروں کو ہراساں کرنے، اقلیتوں پر ظلم، بنیادی حقوق کی پامالی، تاریخ کو مسخ کرنے کے بار بار ہونے والے واقعات، نفرت انگیز تقریر اور جعلی خبروں اور پروپیگنڈے سے بھری پڑی ہیں۔کچھ دن پہلے جینوسائیڈ واچ کے صدر ڈاکٹر گریگروئے سٹینٹن کی کانگریس کی بریفنگ میں بھی اسی قسم کی تشویشناک صورتحال کا اظہار کیا گیا جنہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر بھارتی حکومت کی جانب سے سخت کارروائی نہ کی گئی تو بھارت میں بھی روانڈا کی غیر انسانی نسل کشی جیسا واقعہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں ایک بریفنگ کے دوران انہوں نے ہریدوار میں منعقدہ دھرم سنسد کے پروگرام کا بھی حوالہ دیا جہاں ہندو دائیں بازو کے اراکین نے مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سی این این، ایمنسٹی انٹرنیشنل یو ایس اے، جینوسائیڈ واچ اور امریکہ میں انسانی حقوق کی17 دیگر تنظیموں نے بھی کانگریس کی بریفنگ کے دوران ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار پر اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ ان ماہروں کا کہنا تھا کہ اگر صورت حال مزید خراب ہوتی ہے تو بھارت میں بڑے پیمانے پر تشدد اور مسلمانوں کے قتل عام کا امکان ہے۔ امریکی انٹیلی جنس رپورٹ 2019 ء میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر مودی کی بی جے پی حکومت ہندو قوم پرستانہ موضوعات پر زور دیتی ہے تو ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات فرقہ وارانہ تشدد کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔